صاحب اور دیگر اساتذہ سے پڑھا۔ وہاں اسباق کی ترتیب یوں تھی:
(۱)…حضرت مولانا عبدالحی صاحب امروہوی علیہ الرحمہ ابوداؤد شریف
(۲)…حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب دیوریاوی مدظلہ مسلم شریف
(۳)… حضرت مولاناافضال الحق صاحب قاسمی مدظلہ (۱) بخاری شریف
(۴)… حضرت مولاناافضال الحق صاحب قاسمی مدظلہ بخار ی شریف
(۵)… حضرت مولاناافضال الحق صاحب قاسمی مدظلہ ترمذی شریف
(۶)…حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مظفرپوری مدظلہ شمائل ترمذی شریف
دارالعلوم دیوبند کے بعد اور امروہہ جانے سے پہلے ۲۲؍ روز آپ نے مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں تعلیم حاصل کی ، تفصیلات کے لئے اسی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
۱۹۷۱ء مطابق۱۳۹۱ء میں امروہہ سے فارغ ہوئے ، اس کے بعد ۱۶؍ مہینے تک اپنے وطن بھیرہ میں رہے ، اس دوران گھر کے کاموں کے ساتھ حفظ قرآن کریم مکمل کیا ، اور گاؤں کے نوجوانوں کو قرآن شریف کاترجمہ پڑھاتے رہے، مولانا مرحوم کو قرآن کے ساتھ بڑی مناسبت تھی، اس کا ذکر میرے تفصیلی مضمون میں انشاء اﷲ آئے گا۔
تدریس:
تدریسی زندگی کا آغاز امروہہ مدرسہ چلہ کی عارضی مدرسی سے ہوا، وہاں ایک استاذ رخصت لے کر گھرگئے ہوئے تھے ، تو آپ کے اساتذہ کرام نے آپ کومامور کیا کہ ان کے آنے تک تدریس کے فرائض انجام دیں ، چنانچہ آپ نے وہاں سے مختصر المعانی ، مقامات حریری، مرقات اور ہدایۃ النحو سے تدریسی زندگی کا آغازکیا ، اس کے بعد آپ کے اساتذہ نے میسور بھیجا جہاں چند ماہ امامت وخطابت کا فریضہ انجام دیا ، جس کے بڑے خوشگوار اثرات وہاں کی دینی فضا پر مرتب ہوئے ، آپ نے وہاں مستقل قیام کا ارادہ کرلیا، لیکن جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے ذمہ داروں کے غیر معمولی اصرار پر وہاں کی مدرسی منظور کی، اور اس طرح ۱۹۷۲ء سے آپ نے باقاعدہ درس وتدریس کی ابتداء
------------------------------
(۱) ۳۰؍نومبر۲۰۱۲ء مطابق ۱۶؍محرم ۱۴۳۴ھ بروز جمعہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔اللہم اغفرلہ