پھر امروہہ میں
بہن کی وفات کے بعد دل میں ایسا خلاپیداہوگیاکہ مجھے وحشت سی ہونے لگی ، گھرمیں جاتاتو بہن کا چہرہ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتا،باہر کی دنیامیں کچھ زیادہ انس نہ تھا طبیعت کی بے کیفی بڑھی تومیں سوچنے لگاکہ کچھ دنوں کے لئے گھر سے باہر چلا جاؤں ، لیکن کہاں جاؤں ؟ اس سوال کاکوئی جواب نہ تھا صرف جاناہی نہ تھا اپنے گھر والو ں اور دوسرے اہل تعلق کومطمئن بھی کرناتھا، میری قسمت تھی کہ انھیں دنوں جمعیۃ علمائے ہند نے ایک سالانہ اجلاس دہلی میں طے کیا ، اس کے اشتہارات ہمارے یہاں بھی آئے ،میں نے فرارکادروازہ پالیا، والد صاحب سے ا پنی وحشت کاتذکرہ کیااوردہلی اجلاس میں جانے کی اجازت چاہی کہ وہاں میرے کئی اساتذہ اوراکابر ملیں گے، ممکن ہے کوئی راہ عمل کھلے، والد صاحب نے اجازت دیدی ،جن حفاظ کرام کو میں قرآن کریم کاترجمہ پڑھاتاتھا ان سے اس کاتذکرہ کیا،تووہ بے چین ہوئے، مگرمیری طبیعت کااضطراب دیکھ کر کچھ نہ بولے۔
پھر ایک دن، رات میں میرے انھیں احباب نے محمدآباداسٹیشن پر مجھے ایک ٹرین میں سوار کرادیا، میں اس وقت کس اضطرابی حالت میں تھا، اسے آج شاید بیان کرنا میرے لئے مشکل ہو،بظاہر کوئی مستقبل نہ تھا ایسے ہی بغیر کسی منزل کے میں گھر سے نکل پڑاتھا، اصل میں میرے لئے کوئی جائے پناہ نہ تھی پڑھنے لکھنے میں جو کچھ محنت کی تھی ،طالب علمی میں ذہانت وذکاوت اوردرس وتدریس کی وجہ سے جو کچھ عزت حاصل ہوئی تھی مستقبل میں میرے بزرگوں نے اورخودمیں نے جو توقعات وابستہ کی تھیں اسے ہنگامہ کی ایک آگ نے جلاکر خاکستر کردیاتھا، اب کوئی شخص سیدھے منھ بات کرناتودرکنار نام سننا بھی پسندنہ کرتا تھا ، عزت کے بعد بے عزتی ،نیک نامی کے بعد بدنامی، کارآمد ہونے کے احساس کے بعد ناکارگی کا خیال اس درجہ تکلیف دہ تھاکہ جینے کوجی نہیں چاہتاتھا مگرمرکرہی کیامل جاتا،اس وقت میں سوچاکرتا تھاکہ کہیں جاکر گم ہوجاؤں ،ایسی جگہ جہاں کوئی مجھے پہچانتانہ ہو اورمیں