تفصیل سے حل کیاتھا یہ پرچہ ہمارے علاقے کے مشہور وممتاز مدرس عالم حضرت مولانا نذیر احمد صاحب خیرآبادی علیہ الرحمہ کا بنایاہواتھا ، کاپیاں انھیں کے پاس گئی تھیں ،انھوں نے میری کاپی پر حضرت مولانا عبدالباری صاحب علیہ الرحمۃ ناظم مدرسہ کے نام ایک خط لکھا تھا کہ یہ طالب علم بہت باصلاحیت ہے ، فراغت کے بعد اگر اسے مدرسہ میں خدمت کیلئے رکھ لیاجائے تو مدرسے کو رونق ہوگی ، ناظم صاحب علیہ الرحمہ نے خوش ہوکر مجھے اس تحریر کے بارے میں بتایاتھا، مگریہ نہیں ظاہرکیاتھاکہ مولانا نے کیالکھاہے،بعد میں حضرت مولانا مرحوم نے مجھے بتایا۔
شرح تہذیب منطق کی کتاب ہے اس میں حضرت مولاناجمیل احمد صاحب مدظلہ نے اتنی محنت کرادی تھی کہ میرے لئے اس میں کچھ دشواری نہ تھی میں نے اس کا پرچہ عربی میں لکھنے کی نیت کرڈالی ،نگرانی کرنے والے بعض اساتذہ نے مجھے عربی لکھتے ہوئے دیکھا ،تو انھیں تعجب ہوا، انھوں نے بعض دوسرے اساتذہ سے ذکر کیا تو وہ فرمانے لگے کہ اردومیں مافی الضمیر اداکرنا تو مشکل ہے ، عربی میں کیسے کیاکرے گا؟ اوربات بالکل درست تھی، اس وقت طلبہ میں عربی تحریر وتقریر کا کوئی تصور نہ تھا عربی ششم کے ایک طالب علم نے پچھلے سال ایک پرچہ عربی میں حل کیاتھا، تو اضحوکہ بن گیاتھا، میں عربی سوم کا طالب علم تھا میں کیالکھتا،مگر جب نتیجہ آیا تو اپنے ساتھیوں میں سب سے اچھا نمبر آیا ، سونمبرمیں ۹۰؍ ملے تھے جبکہ میرے کسی ساتھی کو ۴۵؍سے زیادہ نہیں ملے تھے ،میں نے یہ سمجھاکہ ممتحن نے میری عربی کی وجہ سے خصوصی رعایت کردی ہے اس کتاب کے بارے میں معلوم نہ ہوسکاکہ کن صاحب نے اس کا امتحان لیاہے ۔
ایک نئی دھن:
تعلیمی سال گزر گیا مگر شرح تہذیب کے عربی میں پرچہ لکھنے اورایک استاد کے تبصرہ نے مجھ میں ایک نیاجنون پیداکردیا ،وہ یہ کہ اب عربی تحریر وتقریر کی مشق کرنی چاہئے،تقریر کیلئے توایک درجے میں ماحول چاہئے،مگر تحریر کیلئے یکسوئی کافی تھی، میں نے ندوۃ العلماء