ان کے دورکوع ہوگئے اور آگے والوں کاایک رکوع ہوا،یہ توجیہ بہت قابل قبول نہیں ہے ،لیکن عیدگاہ کے اس واقعہ سے اس کا امکان توظاہرہوتاہے ،ابھی حال تک اس کے بارے میں مَیں نے بعض شرکاء سے سنا کہ ایک سجدہ ہواتھا ،میں نے کہاکہ نہیں رکوع نہیں ہو اتھا، روایتوں میں اس طرح اختلاف ہوجاناکچھ بعید نہیں ۔
دیوبند میں میرے کھانے کا انتظام
میری فاقہ مستی کا سلسلہ گھڑی بیچنے کے بعد موقوف ہوگیا،مسجد کے موذن حافظ سمیر الدین نے محلہ کے ایک بااثر اورمخیر بزرگ عبدالوہاب خان سے شاید میرے متعلق ذکر کیاانھوں نے کہا کہ میرے چھوٹے بیٹے عبدالرؤف کو قرآن پڑھا دیاکریں اورکھانامیرے گھر کھالیاکریں ،سمیرالدین نے اس بات کی اطلاع مجھے کی میں نے کہامیں ضرورت مند توہوں مگر کسی کے گھر جاکر ٹیوشن پڑھاناعلم کی غیرت کے خلاف ہے، اورگھر جاکر اس کے معاوضے میں کھاناکھانامیری غیرت کے خلاف ہے اس لئے مجھے یہ معاملہ منظور نہیں ہے، سمیر الدین نے اصرارکیاکہ کوئی قابل قبول صورت بتاؤمیں معذرت کرتارہا مگر سمیرا لدین نے کسی طرح میری معذرت قبول نہیں کی، میں نے کہا بچہ یہیں مسجد میں آئے میں پڑھادیاکروں گااور کھانے سے معذرت ہی قبول کیجئے ، انھوں نے کہا کھانا اس کامعاوضہ نہیں ہے، اگر ان کے گھر سے کوئی لادیاکرے توآپ قبول کرلیں گے یہ بطور ضیافت کے ہوگا ،ان کے اصرار پر میں نے اسے قبول کرلیا،بچہ پڑھنے آنے لگا اورکھاناکبھی وہی لاتاکبھی کسی اورسے بھجوادیتے اس کی تعلیم تو دوہفتے کے بعد بند ہوگئی لیکن کھاناآنے کا سلسلہ قائم رہا ،اس کی طرف سے انھوں نے مجھے بے فکر کردیا، عبدالوہاب خان صاحب کا یہ احسان میری گردن پر ہے ،فراغت کے بعد جب میرا دیوبند جاناہوا تومیں ان کے گھر گیاا ن کا انتقال ہوگیاتھا،عبدالرووف جوان ہوکر کام کاج میں لگ گیاتھا، میں نے بہت کچھ ہدئے تحائف اس کو پیش کئے،وہ بھی بڑی محبت سے پیش آیا مگر اس کے بعد نوبت نہ آئی ،اللہ تعالیٰ عبدالوہاب صاحب کی مغفرت فرمائیں اور عبدالرووف کو اپنی رحمتوں سے نوازیں ۔آمین