بارہواں باب
میسور میں
امروہہ کایہ قیام ایک عبوری دور کا قیام تھا، ہرروز انتظار تھا کہ میسور سے بلاوا آجائے ، تو رخت سفر باندھا جائے ، امروز وفردا کرتے کرتے دو ماہ کی مدت گزر گئی ۔ جولائی ۱۹۷۲ء کا دوسرا عشرہ تھا کہ مولانا سیّد عبد الحی صاحب نور اﷲ مرقدہ کے نام میسور سے پیغام آیا کہ آپ اپنے شاگرد کو بھیج دیجئے ، کرایہ کی رقم بھی ساتھ ساتھ آئی ۔ میں نے دلی میں مولانا عبد الوحید حیدرآبادی کو لکھا کہ جی۔ٹی اکسپریس سے مدراس کا ٹکٹ ریزروکرادیں ، مولانا موصوف دیوبند میں میرے بزرگ کرم فرما تھے ، اس وقت وہ جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے ، اور مسجد عبد النبی دفتر جمعیۃ علماء میں امامت کرتے تھے ، انھوں نے مجھے ٹرین پر سوار کرادیا ۔ اب میں اپنے وطن سے دور بہت دور جنوبی ہند کی ریاست میسور حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی سرزمین کی طرف بڑھتا جارہا تھا ، مدراس اتر کر چھوٹی لائن کی ٹرین پر میسور کیلئے بیٹھا ۔ ایک سر سبزوشاداب علاقے میں ، لطیف وخنک ہواؤں میں ٹرین دوڑ رہی تھی ، طبیعت مچل رہی تھی ، ایک وجد کی سی کیفیت چھائی جارہی تھی ، جی میں آرہا تھا کہ کسی سنسان وادی میں اتر جاؤں اور کسی پہاڑی ندی یا چشمے کے کنارے ڈیرا ڈال دوں ، پھرمیں ہوں اور کائنات کی وسعت میں میرے پرورردگار کی یاد ہو۔ اس وقت علامہ اقبال کی نظم مجھے یاد آرہی تھی، میں بے چین تھا کہ کاش مجھے خلوت کی یہ یکسوئی حاصل ہوتی ، اور مجھ میں اور میرے پروردگار کی یاد میں