کانپتے مختصر الفاظ میں سبق کی تقریر کردی، کہیں کہیں مولانا نے اصلاح فرمائی اورفرمایابس جاؤ،آج کا سبق اتنا ہی رہا،جسے مولانا نے مسلّم رکھا۔
حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحب کی رحلت
اس سال ہم لوگوں کا کوئی سبق حضرت مولانا محمدیحییٰ صاحب علیہ الرحمۃ کی خدمت میں نہ تھا اس کا قلق رہتاتھا اورساتھ ہی یہ خوشی ہوتی تھی کہ اگلے سال ان کے پاس سبق ہوگا، انشاء اللہ ،کیونکہ عربی پنجم کی کتاب دیوان متنبی کادرس مستقلاً مولانا کے پاس ہوتاتھا مولانا سل کے مریض تھے غالباً امتحان ششماہی گزرچکاتھا ،مولانا کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی، مولانانے چند روز مدرسہ میں اقامت اختیارکی درسگاہ میں چارپائی بچھادی گئی، اسی پر آرام فرماتے تھے غالباً علاج کی سہولت کیلئے وہاں اقامت اختیارکی تھی،کیونکہ معالج مبارک پورہی کے تھے ،مولانا کا گاؤں قصبہ سے تین چار کلومیٹرکے فاصلہ پر تھا۔
ایک رات حالت بہت تشویشناک ہوگئی تھی،طلبہ نے زیادہ تر جاگ کر رات گزاری، اخیر رات میں میں سوگیاتھا اچانک فجر سے پہلے شورہواکہ مولانا کی طبیعت بہت نازک ہوگئی ہے، میں دوڑتا ہواحاضر خدمت ہوا،اوربھی کئی طلبہ دوڑے،کئی پہلے سے موجود تھے میں نے چہرہ دیکھاتوسمجھ گیاکہ آخری وقت ہے میں کہنا چاہ رہاتھاکہ سورہ یسین پڑھنی چاہئے کہ اتنے میں ہچکی آئی اورمولانا ہمیشہ کیلئے سوگئے،مدرسہ میں کہرام مچ گیا۔
صبح مولاناکے جسد خاکی کو طلبہ کندھوں پراٹھاکر رسول پورلے گئے ، ظہر کی نمازکے بعد جنازہ کی نمازہوئی اورتدفین عمل میں آئی۔
مناظــرہ
اس سال قابل ذکر ایک اورواقعہ ہوا،ہوایہ کہ ایک روزمیں اپنے کمرے میں ……یہ کمرہ مولاناجمیل احمد صاب مدظلہ کی درسگاہ تھا……بیٹھامطالعہ میں منہمک تھاکہ انجمن جمعیۃ الطلبہ کے صدرصاحب آئے، انھوں نے مجھ سے کہاکہ عربی کی چند تفسیر وں کے نام لکھوادو،میں نے پوچھا خیریت توہے؟کیاضرورت پیش آگئی ہے۔
وہ میں بعد میں بتاؤں گا اس وقت کچھ عربی تفسیروں کے نام لکھ کر مجھے دے دو۔