بزرگ عالم کے مجاز وخلیفہ تھے ، انھوں نے ان دنوں ذریعۂ معاش کے طور پر ایک دکان کھولی تھی ، انھوں نے باتوں باتوں میں کاروباری دشواریاں ، تلاشِ معاش کی محنتیں ، مال کی فروختگی کی دقتیں اور قیمتوں کی وصولیابی کی زحمتیں ، اس انداز سے بیان کیں کہ میرا دل تھرا گیا ، میں سوچنے لگا کہ معاش کا حصول کتنا دشوار ہے ، اس میں دل ، دماغ ، وقت اور فرصت سب کھپ کر رہ جاتے ہیں ، تب کہیں کچھ رقم حاصل ہوتی ہے، میرے دل سے بے ساختہ یہ دعا نکلی کہ :
’’ یا اﷲ! اتنی مشکل روزی کا مجھے تحمل نہیں ، آپ مجھے آسان روزی عطا فرمائیے۔‘‘
میرا اندازہ ہے کہ یہ دعا قبول ہوگئی ، حق تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ ساٹھ سال کی زندگی میں روزی کمانے کی مشقت سے دوچار ہونا نہیں پڑا۔ حق تعالیٰ نے بڑی آسانیاں فرمائیں ۔
(۷)
پہلے گزرچکا ہے کہ میں نے بخاری شریف استاذ محترم حضرت مولانا محمد افضال الحق صاحب قاسمی مدظلہ سے امروہہ میں پڑھی ہے ، تنگی اور مصیبت کے جس دور میں انھوں نے اس حقیر کو اپنے دامن میں پناہ دی ، اس کا گہرا اثر میرے دل پر تھا ۔ مولانا کا مکان اس وقت کے ضلع اعظم گڈھ اور اب کے ضلع مئو کے مشہور قصبہ گھوسی سے چار کیلو میٹر کے فاصلے پر بجانب مشرق رگھولی گاؤں میں ہے ، مولانا تعطیلات میں اپنے گاؤں تشریف لاتے ، تو میں سائیکل سے خدمت میں حاضری دیتا ۔ شعبان (۱۳۹۱ھ )کا مہینہ تھا ، مولانا نصف شعبان کے بعد وطن میں فروکش تھے ، میں ا ن کے یہاں حاضر ہوا، کتابوں کی الماری میں کتابیں دیکھنے لگا، اور دو کتابوں کا انتخاب کیا ۔ ایک امام غزالی کی کتاب ’’ کیمیائے سعادت ‘‘ کا ترجمہ ’’اکسیر ہدایت ‘‘ دوسرے سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ کی ’’ فتوح الغیب ‘‘ کی فارسی شرح جو حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے قلم سے ہے ، اس کاقلمی نسخہ جو بہت عمدہ اور روشن خط میں لکھاہوا تھا ، یہ دونوں کتابیں میں مانگ کر لے آیا ،اور ان کے مطالعہ میں