،یاکوئی اوربھی ہے،کہنے لگے کہ ایک اورمدرسہ ہے ،مگر بہت چھوٹاہے، یہ مدرسہ دار العلوم حسینیہ محلہ چلّہ امروہہ ہے ، اس میں دورۂ حدیث کے صرف دوطالب علم ہیں ، ا س کے شیخ الحدیث حضرت مولانا افضال الحق صاحب جوہرؔ ہیں ،مولانا کومیں پہلے سے جانتاتھا ، میرے استاذ حضرت مولانا عبدالمنان صاحب کے استاذ ہیں ، اسٹرائیک کے ہنگامے میں ان کی طرف سے بہت سے کلمات خیر ہم لوگوں کے حق میں صادر ہوئے تھے ، ورنہ عموماً ہم لوگ کسی حسن ظن اورکسی کلمہ خیر کے مستحق نہیں تھے، اورملامت کی گھٹائیں مسلسل گرج اور برس رہی تھیں ۔
امروہہ میں
میں نے کہاکہ میں جامع مسجد میں جہاں آپ لوگ ہیں نہیں جاؤں گا، مجھے چلہ میں پہونچا دیجئے، چنانچہ امروہہ اسٹیشن سے رکشہ سے چلے تو پہلے محلہ چلّہ آیا میں مدرسہ کے پاس اترگیا،حضرت مولانا افضال الحق صاحب سے ملاقات ہوئی،انھوں نے بخوشی بغیر کسی سفارش کے داخلہ کرلیا، میراجب داخلہ یہاں ہوگیا تومیں نے اپنے ایک قدیم ساتھی حافظ الطاف حسین صاحب کو بھی یہیں بلالیا، حافظ صاحب کادیوبندسے اخراج نہیں ہواتھا مگر ان کا شمار مشتبہ افراد میں تھا ، ایسے لوگوں کیلئے ارباب انتظام نے قاعدہ بنایاتھا کہ اپنے ضلع کے دومنتخب علماء میں سے کسی ایک سے اپنی تصدیق لکھواکر لائیں ،تب داخلہ برقرار رہے گا ،حافظ صاحب کسی کے پاس نہیں گئے،میرے بلانے پر امروہہ میں آگئے،ان کا بھی داخلہ ہوگیا اس طرح ہم چارساتھی ہوگئے،دوتوپہلے سے موجود تھے دواب ہوگئے اس وقت تک مدرسے میں مطبخ نہ تھا ،تھورے سے طلبہ تھے وہ ٹفن لے کر محلہ میں کسی ایک یادو گھرجاتے ،اورانھیں بقدر ضرورت کھانامل جاتامجھے یہ عمل کسی صورت گوارانہ تھا، ہم چارآدمیوں پر مطبخ قائم ہواپھر اس میں اور شرکاء بڑھ گئے تعلیم ہم لوگوں کی شروع ہوگئی، اسباق کی ترتیب یوں تھی۔
(۱)…حضرت مولانا عبدالحی صاحب امروہوی علیہ الرحمہ ابوداؤد شریف
(۲)…حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب دیوریاوی مدظلہ مسلم شریف
(۳)… حضرت مولاناافضال الحق صاحب قاسمی مدظلہ بخاری شریف