بعد نماز عشاء وعظ کا پروگرام ہوگا ، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر سامعین اکٹھا ہوجاتے ، بغیر کسی تکلف کے پروگرام شروع ہوجاتا ، مفتی صاحب کا سادہ اور موثر وعظ ہوتا ، اس انجمن میں مفتی صاحب نے مجھے بھی شامل کیا ، تو ایک مقرر کا اضافہ ہوا ، کچھ دیر میں بیان کرتا ، پھر مفتی صاحب کا بیان ہوتا ۔ انجمن کے یہ جلسے بہت مفید ہوتے ، ان جلسوں کی برکت سے اصلاح معاشرہ کی ایک لہر چل پڑی ، عقائد کی بھی تصحیح ہوتی، اعمال کا شوق پیدا ہوتا ، اخلاق عالیہ کی راہ ہموار ہوتی ، لوگوں کو ہر پندرہ روز کا انتظار رہتا ، مفتی صاحب کی برکت سے ایک ناکارہ اور کاہل سست رو بھی کام پر لگ گیا۔
میری پہلی تصنیف:
شوال اور ذوقعدہ کے چند پروگراموں کے بعد بقرعید کا موقع قریب آیا ، تو مفتی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موضوع پر ایک رسالہ تیار کیجئے ، اسے بقرعید سے پہلے چھپواکر تقسیم کرنا ہے ، اس کے لئے انھوں نے مجھے تین چار روز کی مہلت دی ، میں سوچتا رہا کہ کس انداز پر لکھوں ، متفرق مضامین طالب علمی کے زمانے میں کبھی کبھی لکھتا رہا ، مگر کچھ چھپنے اور اشاعت کے لئے نہیں لکھاتھا ۔ ایک روز عشاء کی نماز کے بعد قلم اٹھایا ، مکالمے کاانداز آسان معلوم ہوا، میں نے لکھنا شروع کیا اور صبح تک لکھتا رہا۔ اس رات بالکل نہیں سویا ، اس وقت جاگنا میرے لئے اتنا ہی آسان تھا جتنا آج کل سونا آسان ہے ۔صبح مفتی صاحب مدرسہ تشریف لائے تو میں نے اپنی تحریر ان کے حوالے کی ، انھیں تعجب ہوا کہ اتنی جلدی رسالہ تیار ہوگیا ، انھوں نے ساتھ ہی کاتب کے حوالے کیا ، چند روز میں یہ رسالہ ’’ قربانی کیجئے ، قربانی دیجئے ‘‘ کے نام سے چھپ کر مدن پورہ کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں پہونچ گیا ،اور بہت رغبت اور شوق سے پڑھا گیا۔
انھیں دنوں انجمن کا پندرہ روزہ جلسہ ہوا ، مضامین سب تازہ اور مستحضر تھے ،میں نے ایک پُرجوش اور رقت انگیز تقریر کی ، جلسوں اور تقریروں کا یہ سلسلہ پورے سال پابندی سے چلتا رہا۔