(۲)
امتحان سالانہ ختم ہوگیا، طلبہ ایک ایک کرکے اپنے اپنے وطن روانہ ہورہے ہیں ، ہم گیارہ ساتھی تھے ، جو ہدایہ اولین پڑھ کر دیوبند جانے کے منصوبے بنارہے تھے ، پروگرام یہ بنا کہ ۷؍شوال کو سب ساتھی مدرسہ میں اکٹھا ہوں ، اور ۸؍ کو ایک ساتھ دیوبند روانہ ہوں ، یہ پروگرام طے کرکے، سب ایک دوسرے سے الوداعی مصافحہ کرکے رخصت ہوگئے ، میں بھی گھر پہونچا، ڈرتے ڈرتے والدصاحب کے سامنے رمضان کا منصوبہ رکھا، ابتداء ً انھوں نے انکار کیا ، مگر ضرورت اورشوق پر مشتمل میری پُر جوش تقریر نے انھیں راضی کردیا۔ ادھر سے جب اطمینان ہوا، تو ناظم صاحب سے اجازت کا مرحلہ باقی تھا ، ناظم صاحب کارعب دل ودماغ پر اس درجہ چھایا ہواتھا کہ تمامتر فصاحت وبلاغت ان کے سامنے ہوا ہوجاتی، ساری لسانی وطراری چوکڑی بھول کر دم بخود رہ جاتی، سہما سہما ان کی خدمت میں حاضر ہوا، مختصر الفاظ میں اٹک اٹک کر اپنا مدعا بیان کیا ، انھوں نے خلاف توقع بڑی خوشی سے اجازت دے دی، اب خطرے کاکانٹا نکل گیا، اس اجازت کے بعد گھر واپس نہیں ہوا، حالانکہ ابھی شعبان کی ۱۶؍ تاریخ تھی ، کتب خانہ کے جنگل میں گھس گیا، کتابیں نکالتا ، پڑھتا،اور جمع کردیتا، اس وقت الجمعیۃ کا جمعہ ایڈیشن وحید الدین خاں کی ادارت میں بڑے آب وتاب سے نکلتاتھا، وہ سنیچر کو مبارک پور پہونچتا، ہفتہ کا سارادن اس کی مصروفیت میں کٹ جاتا، مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ پندرہ دن کتنی تیزی سے اُڑ کر نکل گئے۔
پہلی رمضان آگئی ، اور الطاف نہیں آئے ، میں مضطرب تھا ، دن بھر سراپا انتظار بنارہا، خطرہ تھا کہ اگر الطاف نہ آئے ، تو میرے لئے پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے، دل کی گہرائیوں سے دعا نکل رہی تھی ، دل کی لگی پوری ہوکر رہتی ہے، بالآخر انتظار کی گھڑی تمام ہوئی، مولوی الطاف دروازے سے نمودار ہوئے، کھوئی ہوئی بہار پھر چمن دل میں خیمہ زن ہوئی، دوڑ کر ملا، جلدی جلدی انتظار کی بے تابیاں بیان کیں ، الطاف مسکرا مسکرا کرتاخیر کی معذرت کرتے رہے، اور میں تھا کہ ان کے آنے کی خوشی میں سارا گلہ بھول گیا تھا۔ ؎