دیوبند کی کچھ یادیں
(۱)
دیوبندکی طالب علمی مختصر رہی ، لیکن یہ طلب علم کی سرمستی کا دور تھا ۔ پڑھنے کا جنون تو مجھے بچپن سے تھا ، لیکن اس وقت ایک چھوٹا اور محدود ماحول ، تھوڑی سی محنت بھی بہت معلوم ہوتی۔ دیوبند آیا تو یہاں بڑا ماحول ملا ، یہاں اگر کھلاڑی طلبہ تھے تو بہت سے محنتی اور جان کھپانے والے بھی تھے ، ایک سے بڑھ کرایک ذہین اور صاحب فہم وذکا، راتوں کو جاگنے والے ، کتابوں میں سر کھپانے والے، ابتداء میں تو مجھے قدرے مایوسی ہوئی تھی ، جیسا کہ لکھ چکا ہوں ، لیکن مولوی ابرار احمد دربھنگوی کی رہنمائی میں اس مایوسی کا ازالہ ہوگیا ، پڑھنے والے طالب علموں کو دیکھ کر میری ہمت کو مہمیز لگی ، میں نے ازسرنو عہد کیا کہ اپنی پوری طاقت اس راہ میں صرف کروں گا۔
میں ذکر کرچکا ہوں کہ درس کے بعد اوقاتِ درس میں جو وقت بچتاتھا ، میں اس کا ایک ایک لمحہ کتب خانہ میں اور مطالعۂ کتب میں بسر کرتاتھا۔ ان دنوں میں نے تیز پڑھنے کی مشق کی تھی ، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ آدمی مطالعہ کرتا ہے ، تو اس کی نگاہ پڑھتے وقت بار بار پیچھے پلٹتی ہے ، اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مطالعہ کرتے وقت قلب ، نگاہ کے ہمراہ نہیں ہوتا ، نگاہ آگے بڑھ جاتی ہے ، اور دل غفلت میں پڑا پیچھے رہ جاتا ہے، تو جو کچھ نگاہ نے دیکھا وہ ذہن ودماغ کی گرفت میں نہیں آتا ، اس لئے دل کو جہاں خلا کا احساس ہوتا ہے ، وہ نگاہ کو پیچھے کی جانب پلٹا دیتا ہے ، یہ حرکت معکوسی دل کی غفلت کی وجہ سے مسلسل ہوتی رہتی ہے ، جس کا احساس آد می کو نہیں ہوپاتا ، اور مسلسل اس کی نگاہ آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے ، اس لئے مطالعہ کی رفتار سست ہوجاتی ہے ، جیسے کوئی آدمی راستہ چل رہا ہو اور دو قدم چل کر ایک قدم پیچھے ہٹتا ہو،تو یقینا اس کا سفر کھوٹا ہوگا ، یونہی طالب علم کی نگاہ اور ذہن ودماغ ساتھ ساتھ نہیں