نماز کے بعد پھر دعا ومناجات میں مشغول ہونا چاہ رہاتھا ،اور اسی نیت سے مسجد سے نکل کر اپنے چھوٹے سے حجرے میں بند ہونے جارہاتھا کہ مدرسہ کے مہتمم صاحب بھی مسجد سے نکلتے ہوئے مل گئے اور انھوں نے کوئی گفتگو چھیڑ دی، ان کی گفتگو دراز ہوتی تھی ، مگر اتنی دلچسپ ہوتی تھی کہ وقت کے گزرنے کا احساس نہ ہوتاتھا، مگر آج مجھے بے کلی تھی ، میں اپنے پروردگار سے کچھ مانگنا چاہتا تھا، اس لئے آج میں اکتارہاتھا ، خیر وہ چند باتیں کرکے رخصت ہوئے اور میں کمرے میں جاکر اسے بند کرنے لگ گیا ، ابھی ٹھیک سے بند نہ کرسکاتھا کہ مہتمم صاحب پلٹ کر آئے اور سلام کیا ۔ مجھے خیال ہوا کہ پھر کوئی بات انھیں یاد آئی ، انھوں نے کہا کہ آپ کی تنخواہ کے یہ ستّر روپئے باقی رہ گئے تھے ، میں دوروز سے اسے جیب میں لئے ہوئے ہوں کہ آپ کو دیدوں ،مگر یاد نہ رہا، اب بھی بھول کر جارہاتھا، تھوڑی دور پہونچاتھا کہ یاد آگیا ، پلٹ کر آیا کہ ابھی دیدوں ، میں نے لے لیا ، وہ چلے گئے ، اور میں دروازہ بند کرکے حق تعالیٰ کے احسان اور مہربانی کے تصور سے بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، میں روئیں روئیں سے شکر الٰہی بجالارہا تھا ، جب اس حال سے افاقہ ہوا تو میں نے ناشتے کاسامان منگوایا، اس وقت کے لحاظ سے پُر تکلف ناشتہ بنا ، مہمانوں کو ناشتہ کرایا ، رخصت کے وقت دونوں کو دس دس روپئے ہدیہ دئے ، اس رقم میں بہت برکت ہوئی۔
برکت کا قصہ:
ستر روپئے کی اوقات ہی کیا تھی ، لیکن اس میں جو برکت ہوئی ، میں آج بھی حیران ہوں اور حق تعالیٰ کی مہربانی وعنایت میں ڈوباہوا ہوں ، کہ وہ رازق حقیقی چاہے تو قطرے کو دریا بنادے ۔ ہوا یہ کہ میں نے اپنے دوستوں کو پُرتکلف ناشتہ کرایا ، انھیں ہدیہ دیا ، پھر پہلے سے یہ اطلاع تھی کہ میرے مخلص اور محسن دوست حافظ قاری شبیر احمد صاحب جو اس وقت میرٹھ میں پڑھارہے تھے ، تشریف لارہے ہیں ، میں انھیں لینے کے لئے بنارس گیا ، وہاں وہ ریل سے اترے ، میں انھیں لے کر غازی پور آیا ، وہ چند روز مہمان رہے ، پھر انھیں لے کر شاہ گنج گیا ، انھیں ٹرین پر میرٹھ کے لئے رخصت کرکے واپس آیا، اور یہ سب کام اسی ستر