میاں ‘‘ تھا ، ان کے بیٹے کا نام ’’ لیدھومیاں ‘‘ تھا ، دوسرے بیٹے کانام ’’ پھولو میاں ‘‘ تھا ، مولوی صاحب مرحوم نے ’’ لیدھومیاں ‘‘ کانام محمد قاسم رکھا تھا ، پھولومیاں کانام یاد نہیں رہا کہ کیا رکھا تھا ۔ لیدھومیاں کے کئی بیٹے تھے ، ان میں سے ایک بیٹے کانام ’’ڈِھبرا میاں ‘‘ تھا ، اس کو انھوں نے بدل کر ولی محمد رکھا ، اور یہ ان تین طالب علموں میں سے ایک تھے جو مجھے یہاں لائے تھے، اس طرح کے نام وہاں بکثرت تھے جن کو انھوں نے تبدیل کیا ، ان ناموں کے باقیات سیئات میرے پہونچنے تک موجود تھے مثلاً چھاتومیاں ، لاڑومیاں ، جگدیش میاں ، ڈوما میاں ، چوڑی میاں ، نفرو میاں وغیرہ۔ ہمارے مولانا رفیع الدین صاحب کانام بھی پہلے کچھ اور تھا ، اس کو مولوی صاحب مرحوم نے رفیع ا لدین کیا ۔ مولانا منیر الدین صاحب کا بھی دوسرا نام تھا ، اس کو انھوں نے بدل کر منیر الدین کیا ، مولوی منیر الدین کے ایک چچا کا نام بَنکا میاں (بندوق) تھا ، میرے پہونچنے کے بعد جو بچے پیدا ہوئے ان کے نام یاتو میں نے رکھے یا میرے طالب علموں نے ، پھر اچھے ناموں کا ایک سلسلہ چل پڑا ، عورتوں کے نام اور بھی مضحکہ خیز تھے وہ بھی زیادہ تر تبدیل کئے گئے ۔
اس علاقے کا جائے وقوع ایسا تھا کہ پندرہ کلومیٹر تک کسی طرف کوئی قصبہ اور بازار نہ تھا ، بازار جانا ہو یا بیمار کو کسی ا چھے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوتو کم ازکم پندرہ کلو میٹر پیدل یا سائیکل سے راستہ طے کرنا پڑتا ، اوروہ بھی بعض اطراف میں پہاڑی علاقہ !پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر گھوڑمارا تھا ،اوراسی قدر فاصلے پر ایک بازار پالوجوری اور دوسرا جَرمُنڈی تھا ، جہاں لوگ اپنی ضروریات کے لئے جایا کرتے تھے، اس باب میں یہ لوگ اتنے جفاکش تھے کہ صبح کو پیدل جاتے اور بعض تو لکڑی کا کھڑاؤں پہن کر جاتے اور دو تین بجے تک لوٹ آتے ، مریضوں کا معاملہ سب سے زیادہ مشکل تھا ، ہلکی پھلکی دوائیں رکھنے والے دو تین نیم حکیم تو موجود تھے ،مگر کسی بھی اہم بیماری کے لئے ان دونوں بازاروں میں یا دیوگھر اور دُمکا شہر میں جانا پڑتا۔
تعویذات کا آغاز:
اس مجبوری کی وجہ سے اس جگہ مجھے وہ کام شروع کرنا پڑاجس کا نہ کبھی مجھے تصور تھا