بعد کسی تاریخ کا کاشی اکسپریس سے اٹارسی تک کا ٹکٹ بنوادیا ، جس دن مجھے بنارس کے لئے آناتھا ، اس سے دوروز پہلے موسلادھار بارش شروع ہوئی ، یہ بارش متواتر چھتیس گھنٹے ہوئی تھی ، درمیان میں ذرا بھی وقفہ نہیں ہوا، چھتیس گھنٹے میں ۱۹۷۱ء جیسا سیلاب آگیا ، میں گھبرایا کہ اب میسور کیونکر جاؤں گا ، وہاں میں نے خط لکھ کر اطلاع کردی تھی ، ۳۶؍ گھنٹے کے بعد بارش رکی، تو گاؤں کے کنارے سے میں کشتی پر بیٹھا اور محمد آباد بازار کے پاس تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اترا ، مئو گیا ، مئو سے بنارس گیا اور ۲۶؍ شعبان کو مفتی صاحب نے مجھے کاشی اکسپریس پر سوار کردیا۔
دوسرے دن شام کو اٹارسی اترا ، چھ گھنٹے کے بعد دہلی سے مدراس جانے والی ٹرین ملی ، اس سے مدراس پہونچا ، مدراس بنگلور ، پھر بنگلور سے چھوٹی لائن کی ٹرین سے میسور پہونچا ، یہ سفر ۷۲؍ گھنٹے کا ہوا تھا ۔ اہل میسور بہت خوش ہوئے ، خاکی شاہ کی مسجد میں ایک دوسرے امام متعین ہوچکے تھے ، تراویح کے لئے ایک حافظ قرآن بھی آچکے تھے ، میرے لئے یہ پروگرام بنا کہ ہر روز بعد نماز ظہر میری تقریر ہوا کرے اور جمعہ کا خطبہ میں دوں ۔
رمضان شریف شروع ہوا ،تو میں نے ظہر کی نماز کے بعد ریاض الصالحین سامنے رکھ کر حدیث کے درس کا آغاز کیا ، یہ درس بہت مقبول ہوا ، بڑی تعدادمیں اس میں مسلمانوں کی حاضری ہونے لگی ، میں پچھلے سال کرایہ کی جو رقم لے کر گیا تھا ، اسے واپس کیا ، وہ لوگ بہت متاثر ہوئے ۔
پروفیسر غوث محمد مولوی بہت خوش تھے ، اب کی بار سب لوگ مصر تھے کہ میسور میں رہنے کا فیصلہ کرلیجئے ، میں نے قبول کرلیا ، پھر میرے لئے مکان طے کیا گیا ، اب میں صاحب اولاد ہوچکا تھا ، میری بڑی بیٹی عائشہ گود میں تھی ، طے ہوا کہ میں اپنے چھوٹے سے گھرانے کو لے کر عید بعد آجاؤں ، پھر لوگوں نے میری آمد کا مفصل انتظام کیا ۔
تحصیل مال میں طبائع کی پستی:
اس سفر میں دوباتیں ایسی پیش آئیں جن کا میرے دل پر بہت اثر ہوا ،انھیں لکھتا