طرح کا عہد کیا تھا ، کسی نے ان میں سے ایک سے پوچھا کہ اس عہد کے بعد آپ لوگوں کا کیا حال رہا؟ وہ کہنے لگا کہ دوسال سے بات چیت بند اور تعلقات منقطع ہیں ،انھوں نے اشارہ کیا کہ کہیں ایسا ہی حال آپ لوگوں کا نہ ہو ، اور واقعہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کو نباہ لینا تو نسبۃً آسان ہے ، مگر نہی عن المنکر کو برداشت کرلینا ذرا مشکل ہوتا ہے ، ٹوکنے والے کا لہجہ کیا ہوتا ہے ؟ اس نے صورت حال پر صحیح گرفت کی یا کسی غلط فہمی میں وہ مبتلا ہوا؟ واقعی اسے اس غلطی کی تحقیق ہے ، یا کسی کے کان بھرنے سے متاثر ہوا؟ وغیرہ بڑی نزاکتیں ہیں ، ان نزاکتوں کی روشنی میں ہم نے برداشت وتحمل کا بھی عہد کیا ، اور اﷲ کا شکر ہے کہ ہم دونوں اس پر برقرار رہے ، تاآنکہ اس عہد کے ایک یا دوماہ کے بعد وہ ہنگامہ ہوگیا ، جس نے ہم دونوں کو الگ الگ راہوں پر ڈال دیا ، انھوں نے فتنہ کی سنگینی اور حالات کا جوش وخروش دیکھا ، اور مجھے پُرشور اجتماعیت کے طوفانِ بلاخیز میں گھرا ہواپایا، نیز اس دوران وہ مجھ سے مل بھی نہ سکے کہ کچھ کہہ پاتے، تو انھوں نے خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ، پھر مجھے خبر نہ ہوئی میرا یہ مخلص ومہربان دوست اپنے کوچھپانے میں کہاں کامیاب ہوگیا ، وہ مجھ سے بدرجہا بہتر ثابت ہوا، وہ حدیث کی ہدایت کے مطابق فتنہ مواج سے بالکل الگ تھلگ رہا ، پھر ہنگاموں کی بلاخیزی میں وہ مجھ سے کہیں نہیں ٹکرایا۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں مدرس ہے ، میرے نزدیک وہ ایک عظیم انسان ہے ، میری عقیدت ومحبت اس کے ساتھ ہے ، گوکہ پھر کبھی ملاقات نہیں ہوسکی۔
دار العلوم دیوبند میں روزہ رکھنے میں یہ میرے رفیق تھے ، سحری یہ تیار کرتے ، اور ہم دونوں اسے کھالیتے ، اس وقت کی صحبت بہت اچھی ہوتی ، اﷲ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
(۴)
اوپرمیں مولوی عزیز الرحمن فتح پوری کا ذکر کرچکا ہوں ، یہاں میں ان کا واقعہ لکھنا چاہتا ہوں ، گوکہ وہ میری آپ بیتی نہیں ہے ، لیکن ان کے اس واقعہ کا تاثر میرے اوپر بہت