یہ مجھ سے بدرجہا بلند ہے ، مجھے بھی اس بلندی تک پہونچنا چاہئے ، میں دار الحدیث میں پہونچا، جلسہ شروع ہوچکا تھا، اناؤنسر نے اعلان کیا کہ جناب مولوی دبیر عالم صاحب دربھنگوی اسٹیج پر تشریف لارہے ہیں ، اور گل افشانی گفتار سے مجمع کو لالہ زار بنائیں گے۔
یہ اعلان ہونا تھا کہ ایک طرف سے ایک دبلا پتلا طالب علم چھوٹا کرتا اور خالطہ پاجامہ پہنے ہوئے نمودار ہوا۔ پکارنگ ، آنکھوں میں جرأت وبے باکی کی چمک ، داہنے ہاتھ میں کاغذ کاایک پلندہ دبا ہوا۔ بے تکلفی اور بے خوفی سے مائک کے سامنے آیا ، اور خطبہ پڑھ کر تقریر شروع کردی، انداز ایسا تھا جیسے کوئی بڑا کہنہ مشق خطیب ہو ، ایک خاص آہنگ میں ،پُرجوش خطابت تھی ، موقع بموقع خوبصورت اشعار بھی پڑھ رہا تھا ، ادب وانشاء کاآبشار بہہ رہا تھا، تمام طلبہ سراپا سکوت تھے ، اس کی تقریر تھی! کہ دلوں میں اترتی چلی جارہی تھی ، طالب علم معمر نہ تھا ، چہرہ ابھی ناآشنائے ریش وبروت تھا ، لیکن آواز میں ایک عجیب جھنکار تھی ، میں اس کی تقریر سن رہاتھا اور میرا دل سینے میں اچھل رہا تھا ، میں سوچ رہا تھا کہ مقرر یہ ہے ! میں تو ننگِ خطابت ہوں ، میرے جی میں آرہا تھا کہ تقریر کاانداز مجھے بھی یہی اختیار کرنا چاہئے۔
آدھ گھنٹے تک خطابت کایہ آبشار بہتارہا، اور سب کو اپنی رَو میں بہاتارہا، جب وہ تقریر ختم کرکے مڑا ہے تو لوگ چونکے کہ اتنی جلد کیوں یہ آواز بند ہوگئی ، میں اس تقریر سے بہت متاثر ہوا۔
جماعت اسلامی سے سابقہ:
میں ایک روز دار العلوم کے عظیم الشان کتب خانہ میں بیٹھا محو مطالعہ تھا ۔ کیا پڑھ رہاتھا ، اس سے پہلے یہ عرض کردوں کہ میں جب جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں زیر تعلیم تھا ، اس وقت وہاں چند افرادکے بارے میں سناتھا کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ، ان میں مدرسہ کے طبیب خاص جناب حکیم محمد صابر صاحب بھی تھے ۔ میرا شوقِ مطالعہ مجھے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے دروازے تک بھی لے گیا، ان کی متعدد کتابیں میں احیاء العلوم میں آنے سے پہلے گھر پر پڑھ چکا تھا ، مدرسہ میں آیا تو یہاں اور کتابیں ملیں ، ان کا اندازِ تحریر