نمایاں کامیابی کے ساتھ دیا تھا ، جامعہ اسلامیہ بنارس اس سلسلہ میں دوتین مرتبہ جانا ہواتھا ، وہاں کے ناظم حافظ عبد الکبیر صاحب سے جو بنارس کے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے تھے ، تعارف تھا ، خیال تھا کہ انھیں کے پاس جاؤں اور ان سے درخواست کروں کہ میرے لئے میسور کا ٹکٹ بنوادیں ۔
چنانچہ وہاں پہونچ کر میں نے ان سے گزارش کی، وہ مل کر بہت خوش ہوئے ، بہت اعزازواکرام کیا ، مدرسہ کے صاحب دفتر منشی وحید اﷲ صاحب کو بلایا کہ میسور کے دو ٹکٹ بنواکر لائیے ، اس وقت مدراس کے راستے میں کہیں ہندو مسلم فساد ہوا تھا ، ان کی رائے ہوئی کہ سفر براہ بمبئی کیا جائے ، بمبئی پہونچ کر پونہ اور پھر پونہ سے میسور ، مجھے سفر کا تجربہ زیادہ نہ تھا ، لیکن اور کوئی صورت نہ تھی ، میں نے حامی بھرلی ، منشی وحید اﷲ صاحب اسٹیشن گئے اور بمبئی کا ٹکٹ ایک ہفتہ بعد کا بنوالائے ، دوبجے مجھے ٹکٹ ملے ، میں نے حافظ عبد الکبیر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور رخصت چاہی ، انھوں نے کہا آج رک جائیے ، کل چلے جائیے گا ، میں اس کے لئے تیار نہ تھا ، مگر انھوں نے اصرا رکیا ، اور میں احسان میں ڈوباہوا تھاہی ، رک گیا۔
تدبیر پر تقدیر کا غلبہ:
شام کو عصر کے بعدحافظ صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب جو قدرے معمر تھے ، بزرگ صورت تشریف لائے ، میں نے ان سے سلام ومصافحہ کیا ، حافظ صاحب نے تعارف کرایا کہ ہمارے مدرسہ جامعہ اسلامیہ کے صدر حاجی عبدا لقیوم صاحب ہیں ، اب صدر اور ناظم نے مجھ سے کہنا شروع کیا کہ اب تک جامعہ اسلامیہ کی ایک ہی عمارت تھی ، مدن پورہ میں ، اسی میں پرائمری کی بھی تعلیم ہوتی تھی اور عربی کی بھی ، لیکن اب عربی شعبہ الگ کردیا گیا ہے ، اس کے لئے ریوڑی تالاب میں عمارت تیار ہے ، اس سال عربی شعبہ وہاں جائے گا ، اب تعلیم کو ترقی بھی دینی ہے ، اس لئے آپ میسور کے بجائے یہیں کی مدرسی قبول کرلیجئے۔