تنخواہ دو سوروپئے ہو۔
میں نے عرض کیا کہ تنخواہ کی بات چونکہ مجھ سے نہیں ہوئی تھی ، اس لئے اس معذرت کا محل میں نہیں ہوں ، مولانا ہیں ، آپ ان سے بات کرلیں ، رہا میرا معاملہ تو وہ یہ ہے کہ نہ مجھے تنخواہ کی کسی مقدار کا مطالبہ ہے اور نہ خود تنخواہ کا مطالبہ ہے ، مجھے آپ حضرات نے کام کرنے کا موقع دیا ہے ، اس کے لئے میں شکرگزار ہوں ، مجھے کام کرنے دیجئے ، اس کے بعد آپ کی طرف سے جو کچھ مل جائے گا میں ا سے عطیۂ الٰہی سمجھ کر قبول کرلوں گا ، مجھے اس کا بھی انتظار نہ رہے گا کہ آپ نے مولانا سے بات کی یا نہیں ؟ اسے سن کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے ، اور فوراً دوسو روپئے مجھے دئے ، میں یہ سمجھ کر کہ یہ دوسوروپئے بھی میری حیثیت سے بڑھ کر ہیں ، میں نے بخوشی قبول کرلئے ، اس طرح پندرہ بیس دن کی میری غربت ٹوٹی ، ڈاک خانہ سے کارڈ اور لفافے لایا، امروہہ اور گھر خطوط لکھے۔
میسور یونیورسٹی میں :
شہر میں رفتہ رفتہ میری تقریروں کا آوازہ گونجتا گیا ، ایک روز ایک نوجوان جو حلئے اور چہرے بشرے سے دیندار معلوم ہورہا تھا ، میرے پاس آیا ، اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام عبد الرشید بتایا ، وہ میسور یونیورسٹی کا طالب علم تھا ، اس نے بتایا کہ یونیورسٹی کے حلقے میں طلبہ کے لئے جو دارا لاقامے ہیں ، ان میں ایک بڑا دار الاقامہ مسلمانوں کے لئے مختص ہے ، اتوار کے دن جبکہ چھٹی ہوتی ہے ، ہم لوگ مختلف طرح کے پروگرام کرتے ہیں ، آپ کی شہرت عام ہوئی ہے ، اور بہت سے طلبہ نے آپ کی تقریریں سنی ہیں ، ان کا ارادہ ہے کہ اب کی اتوار کو آپ کا بیان ہو ، اگر آپ حامی بھردیں تو میں طلبہ کو مطلع کردوں ، میں نے اس کو بخوشی قبول کرلیا۔ دوسرے دن اتوار تھا ۔
عبد الرشید علی الصباح میرے پاس آیا ، اس کے ساتھ میں ایک بس پر سوار ہوا۔ بس بل کھاتی ہوئی چھوٹی چھوٹی پہاڑی سڑکوں پر چل رہی تھی، فضا بہت خوشگوار تھی ، ہر طرف