کی، اور اس کا سلسلہ بلا کسی انقطاع کے ۴۲؍ سالوں پرمحیط ہے، جس دن آپ کا انتقال ہوا ہے یعنی ۲۸؍ستمبر شنبہ کو، اس دن بھی آپ نے دوکتابوں کا سبق پڑھایا ہے۔
ایک سال جامعہ اسلامیہ بنارس میں رہنا ہوا، اس کے بعد مدرسہ دینیہ غازی پور ۱۹۷۳ء میں تشریف لے گئے ۔ وہاں آپ نے دو مرحلوں میں نو سال تدریس کی خدمات انجام دیں ، پہلے مرحلہ میں ۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۷ء تک ،اور دوسرے مرحلے میں ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۶ء تک یہاں رہے۔قیام غازی پورکے پہلے دورکے دوسالوں تک کے حالات حضرت مولانا نے تحریر فرمائے تھے کہ حیات مستعارکے دن پورے ہوگئے ۔
قیام غازی پور کے دوران تصوف وسلوک کی طرف رجحان ہوا ، اس سلسلہ میں مولانا لکھتے ہیں :
تصوف وسلوک :
غازی پور میں جب یکسوئی نصیب ہوئی ، تو طبیعت ان اعمال ووظائف کی طرف مائل ہوئی جن میں مَیں گھر پر رہ کر مشغول رہا کرتا تھا ، یعنی تلاوت، طول طویل نوافل ، اوراد ووظائف ، اور ان سب کے ساتھ شوق مطالعہ ، تہجد کی پابندی بحمد اﷲ ہر جگہ رہی ۔ میسور میں ، بنارس میں ، یہاں بھی وہ سلسلہ قائم رہا ۔ یہاں اوراد ووظائف میں اضافہ بھی ہوااور پابندی بھی بڑھی ۔ ایک روز مدرسہ کے کتب خانہ میں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ کی خانقاہ الہ آباد سے نکلنے والے رسالہ ’’ معرفت حق‘‘ کے چند شمارے ہاتھ آئے ، میں انھیں پڑھنے لگا ، ان کے پڑھنے سے دل پر عجیب وغریب اثر ہوا ، ایسا محسو س ہوا جیسے پیاسے کو آب زُلال مل گیا ہو ، دلچسپی بڑھی اور اتنی بڑھی کہ میں ان مضامین ومواعظ میں جذب ہوکر رہ گیا ، وہاں جتنے رسائل مل سکے ،میں سب اٹھالایا اور بار بار پڑھتا رہا ،اور جتنا پڑھتا دلچسپی بڑھتی رہی ، طبیعت دنیا سے پہلے ہی سرد ہوچکی تھی ، دل نے ’’ معرفت حق ‘‘ کے مضامین سے محبت ومعرفت کی گرمی پائی ، پھر آنکھوں نے آنسوؤں کی جھڑی لگادی ۔ میں شاہ صاحب کے نام سے واقف تھا ، ان کی تاثیر بھی قدرے جانتا تھا ، مگر ان کے مواعظ وملفوظات پڑھنے کا کبھی اتفاق نہ ہواتھا ، اب جو پڑھنے کی توفیق ہوئی تو دل کی دنیا زیر وزبر ہوکر رہ گئی، میں بار بار ان مضامین کوپڑھتا اور قلب کو گرماتا رہتا ، لیکن یہ چند ہی