ہے جہاں جلسہ ہوا تھا ، مگر یہ یاد ہے کہ اس جلسے کے انعقاد میں شہر میسور کے تمام مسلمان شریک تھے ، بڑا عظیم الشان جلسہ ہوا ، لوگوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ جب جلسہ کا اشتہار چھاپنا ہوا تو میرے نام کے ساتھ وہ القاب وآداب لکھے گئے ، جن کا اس وقت تو کیا میں آج بھی جبکہ چالیس سال کا عرصہ گزر نے کو ہے تصور نہیں کرسکتا ، اشتہار چھپنے کے بعد مجھے دکھایا گیا ، میں نے سخت نکیر کی ، لیکن عقیدت ومحبت کا جذبہ شاید اس طرح کی نکیروں سے مزید شدت اختیار کرتا ہے ، اس لئے میں نے اس سے صرف نظر کرلیا۔
یہ آخری جلسہ تھا ، جس میں مَیں نے بیان کیا،یہ بیان رسول اکرم ا کے سفر معراج پر ہوا ، اور اس کے ضمن میں عظمت رسول کاایسا بیان ہوا کہ بریلوی بھی برملا یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ رسول اﷲ اکی عظمت ورفعت شان پر ایسا بیان کبھی نہیں سناگیا۔
اس کے بعد میں میسور کے مسلمانوں کا مرکز نگاہ بن گیا ، شعبان کا مہینہ آیا ، تو اس کی فضیلت ، شب برأت کی عظمت پر بیانات شروع ہوئے ، ساتھ ہی اس ماہ مبارک کے ساتھ جوبدعات وخرافات ، جہالت نے جوڑ رکھی ہے ، اس کا خوبصورتی سے ردوانکار بھی کرتا رہا۔
میسور پہونچ کر اور ایک اجنبی جگہ دین کی خدمت کا وجود دیکھ کر پچھلی وحشتیں مٹنے لگیں ، زندگی میں اطمینان کی لہر دوڑنے لگی ، یہ امید ہوچلی کہ اﷲ ورسول کی خدمت کی توفیق مجھے عطا ہوسکتی ہے ، مایوسی کے جو بادل میرے وجود پر چھائے ہوئے تھے محسوس ہوا کہ وہ چھٹ رہے ہیں ، رمضان کا ماہ مبارک لحظہ بہ لحظہ قریب آرہا تھا اور مجھے وطن اور گھر کی یاد ستانے لگی۔
وطن کی واپسی:
میں نے مسجد کی انتظامیہ سے ذکر کیا کہ رمضان کے پہلے میں گھر جانا چاہتاہوں ، انھیں حیرت ہوئی کہ کام کا میدان توبن گیا ہے اور رمضان المبارک کی ساعتوں میں جبکہ طبیعتیں فطرۃً دین کی طرف ہوتی ہیں ، کا م کا اچھا موقع ہوگا ، مگر میں نے کہا اس وقت مجھے