چلاآیا، وہاں پہونچنے میں اتنی دیر ہوئی کہ ٹرین کا وقت نکل گیا ، اساتذہ کرام بڑی محبت سے ملے ، خیریت دریافت کی ، سب نے تسلی دی، سامان سفر ٹھیک کرکے دوسرے روز ۱۰؍ شوال کو سٹھیاؤں اسٹیشن پہونچا، چھوٹی لائن کی ٹرین جو شاہ گنج تک جاتی ہے، ساڑھے نو بجے صبح کو ملی، اگلے اسٹیشن اعظم گڈھ کے پلیٹ فارم پر جونہی گاڑی کی رفتار کم ہوئی، کیا دیکھتا ہوں کہ میرا پرانا رفیق ابوالعاص (اب وہ مرحوم ہوگیا ہے، اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائیں ،آمین۔ اس کاذکر پہلے آچکا ہے۔) انجان شہید کارہنے والا، جو مجھ سے ایک جماعت آگے ہونے کی وجہ سے پچھلے سال ہی دیوبند جاچکاتھا ، پلیٹ فارم پر کھڑا ہے ، اچانک ایسا محسوس ہواکہ دل کا سارا بوجھ اتر گیا، ساری کلفت کافور ہوگئی ، حالانکہ ابھی یقین کے ساتھ نہیں جان سکاتھا کہ یہ بھی آمادۂ سفر ہے ، لیکن اس کا زرق برق لباس اور ڈبوں میں گھستی ہوئی متجسسانہ نگاہ غمازی کررہی تھی کہ تیاری سفر کی ہے، مجھ پر جونہی اس کی نگاہ پڑی، لپک کر دوڑا، اور میرے ڈبہ میں گھس گیا۔
ارے! تم اب جارہے ہو؟ ہاں جی! میں بیمار ہوگیا تھا ، کسی قدر اس سے نجات ہوئی ہے ، تو چل پڑا ہوں ، تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں بھی تو چل ہی رہاہوں ، سبحان ا ﷲ! اب خوشی کی تکمیل ہوگئی ، اب کوئی پریشانی نہیں ، پھر تو سفر خوب کٹا، شاہ گنج میں ڈیڑھ بجے دہرہ دون ایکسپریس ملی ، صبح فجر سے پہلے لکسر میں اسے چھوڑدیا، اور دوسری ٹرین میں سوار ہوکر سہارن پور پہونچے، پھر اسے چھوڑا، اور تیسری ٹرین سے ساڑھے بارہ بجے دیوبند جا پہونچے۔
دارالعلوم دیوبند میں
یہ کون سی سرزمین ہے؟یہ سامنے بلند وبالا کون سی عمارت کھڑی ہے؟ جس کی عظمت اور جلال کے سامنے بے اختیار دل کی پیشانی جھکی جارہی ہے، ایسی عمارت جو ظاہری آرائش وزیبائش سے خالی ہے، جس کا حسن نگاہوں کو محسوس نہیں ہورہا ہے ، مگر دل ہے کہ پروانہ وار فدا ہورہا ہے، خدا جانے اس میں کس غضب کی کشش بھری ہوئی ہے کہ دیکھنے سے