نائب صاحب نے ایک خط دے کر امروہہ مدرسہ چلہ میں اسے بھیج دیا،مولانا عطاء اللہ صاحب ان کے خاص شاگرد تھے، انھیں کے نام خط لکھا، انھوں نے حضرت مولاناافضال الحق صاحب سے سفارش کی،مولانابہت وسیع القلب تھے، داخلہ کرلیا،حالانکہ میں نے دبی زبان میں مخالفت کی تھی،مولانا نے اسے میرے ہی کمرے میں رکھ دیا،ہم لوگ اس سے ربط ضبط نہ رکھتے تھے، اب اس کا نام آیا تومیں نے اسے سمجھایا، اورپوچھا ،اس نے اقرارکرلیا، میں نے پوچھا کہ اس نے ایساکیوں کیا تو اس نے بتایاکہ وہ سنیما دیکھنے کاعادی ہے، اس کے بغیر اسے چین نہیں آتا، پیسے اس کے پاس نہ تھے تب اس نے میرے بکس سے رقم نکال لی۔
میں نے مولاناسے تذکرہ کیا مولانانے بہت تاسف کااظہارکیا اورفرمایا کہ بڑوں کا بگاڑا جلدی نہیں بنتا، مولانانے اس کے والدکے نام مجھے ایک خط دے کر بھیجا، وہ آئے اورانھوں نے وعدہ کیاکہ گھرجانے سے پہلے میں انھیں رقم دیدوں گا، انھوں نے وعدہ پوراکیا اورجلسہ والے دن انھوں نے پوری رقم مجھے دیدی، وہ بہت نیک آدمی تھے۔
(۶)تدریس
میں نے پہلے کہیں ذکر کیاہے کہ مجھے پڑھنے کے ساتھ پڑھانے کابھی ذوق تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس ذوق کی تکمیل کاسامان بھی عطافرمارکھاتھا۔امروہہ میں دوطالب علم دیوریا کے تھے جوعربی سوم میں پڑھتے تھے، وہ عربی سوم کی کتابوں کے ساتھ عربی چہارم کی کتابیں بھی پڑھناچاہتے تھے، چنانچہ میں نے خارج اوقات میں انھیں چہارم کی کتابیں شرح جامی وغیرہ پڑھادیں ،وہ اگلے سال مدرسہ شاہی میں چہارم کا امتحان دے کر کامیاب ہوگئے۔
ہم لوگوں کی چونکہ مدارس میں عام شہرت تھی اس لئے اکثر مدرسوں کے ذی استعدادطلبہ ملنے کی آرزو رکھتے تھے چنانچہ مدرسہ شاہی کے متعدد طلبہ وہاں سے امروہہ ملنے کیلئے آیا کرتے تھے، اور سوالات بھی کرتے تھے، ایک طالب علم ذی استعداد اورنیک کئی طلبہ کے ساتھ ملنے آیا، وہ مختصرالمعانی پڑھتاتھا، میں نے دوران گفتگو مختصرالمعانی کس طرح پڑھانی چاہئے اس پر تفصیل سے گفتگو کی، مختصرالمعانی ایک پیچیدہ کتاب ہے،مصنف نے اس