ہم لوگ گھر واپس آکر ضروری سامان لے کر دوسرے دن مدرسہ میں حاضر ہوگئے اورتعلیم اوردرس میں شریک ہوگئے، یہاں کا نصاب مختلف تھا ،اندازِ درس الگ تھا ،تہذیب ورہائش الگ تھی مگر ہمیں تو وقت گزارنا تھا، ہم لوگ سعادت مندی کے ساتھ درس میں حاضر ہوتے ، طلبہ کو تکراربھی کرانے لگے ،ہم اپنے طریقہ پر تکرار کراتے تھے ،چند دنوں میں ہم لوگوں کی ذہانت اورقابلیت کا سکہ جم گیا ،مولوی طاہرحسین صاحب تو اردو کے ساتھ عربی بولنے کابھی ملکہ رکھتے تھے ،میں ان کی طرح عربی بول تونہ سکتاتھا مگر عربی انشاء پردازی کا ملکہ تھا، مدرسہ میں ہم دونوں کا شہرہ ہوگیا ،تقریر دونوں کرلیتے تھے ، چنانچہ اس وقت کے ایک ابتدائی درجہ کے طالب علم مولوی محمد اشفاق صاحب بکھراکے رہنے والے ،اپنے گاؤں میں ہم دونوں کو لے گئے اورتقریر کروائی۔
سرائمیر میں ہم لوگوں نے دوہفتے گزارے ان دوہفتوں میں ہم لوگوں نے وہاں کے انگریزی ماسٹر سے جن کانام محمد مسلم صاحب تھا اچھی خاصی انگریزی بھی سیکھ لی،میری انگریزی تواس حد تک ہوگئی تھی لغت کی مددسے میں انگریزی کی ہلکی پھلکی کتابیں حل کرلیتاتھا، ہم لوگ وہاں کے ماحول میں اجنبی تھے مگر آہستہ آہستہ اس میں ڈھل رہے تھے دوہفتے ہونے ہی والے تھے کہ مجھے ایک بڑا پھوڑا ٹھیک بیٹھنے کی جگہ پر نکل آیا، تکلیف بہت شدیدتھی، مولوی طاہر حسین صاحب مجھے لے کر گھر آگئے، پھر وہ واپس چلے گئے میں پانچ دن تک بستر پڑارہا اورپڑے پڑے مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتارہا، اور مستقبل کے بارے میں سوچتابھی رہا، علامہ اقبال اوراقبال سہیل کی کلیات زیادہ تر مطالعہ میں رہتیں ، یہ دونوں عزم وہمت ،اورحوصلہ وولولہ کے شاعر! میری طبیعت بھی عزم وحوصلہ سے معمورہوتی رہی، گوکہ ہم لوگ آسمان سے گرے تھے، مگر بازوئے پرواز میں کمزوری کااحساس نہیں تھا، چھ دن میں زخم ٹھیک ہوگیا ، جاڑے کی شروعات تھی میں نے ایک کمبل لیا، اوروالد صاحب سے رخصت ہوکر سرائمیر چلا۔
بچے کی زبان سے نصیحت
میں گھر سے نکل کر پاس ہی گاؤں کے مدرسے کے عقب سے گزررہاتھا وہاں چند