گھڑی بیچی
عامر سے لیاہواروپیہ کتنے د ن کام دیتا پھر فاقہ مستی شروع ہوگئی ،میرے پاس ایک پرانی گھڑی ’’ٹیٹونی‘‘کی تھی ایک طالب علم سے میں نے کہااسے خرید لواس نے ساٹھ روپئے میں خرید لی،تیس روپئے میں نے اپنی جیب میں ڈالے اورتیس روپئے ایک طالب علم کو معتمد سمجھ کر دیدئے کہ جب ضرورت ہوگی لے لوں گا، اطمینان تھا کہ پندرہ بیس دن کاخرچ چل جائے گا، اس سے فاقہ ٹوٹالیکن وہ طالب علم تیس روپئے لے کر کہیں چلاگیا، اورواپس نہیں آیا ، معلوم ہواکہ وہ حفظ سے فارغ ہوچکاتھا آگے اسے پڑھنانہیں تھا ،کہیں جگہ کی تلاش میں چلاگیا، میں نے یہ تصور کرلیاکہ میری گھڑی تیس روپئے میں فروخت ہوئی۔
حافظ(قاری ) شبیر احمدصاحب نابینا
دار العلوم دیوبندکی اسٹرائیک کے طوفانی ہنگامے نے گو بہت کچھ بربادکیا ،بہت سی امیدوں اور آرزوؤں پر پانی پھیرا ، کتنے حوصلوں کو سردکیا اور ولولوں کو بجھایا، مگر جس طرح سیلاب کی تیزی کھیتوں کو تباہ اور آبادیوں کو ویران کرتی ہے ، لیکن بسااوقات بنجر زمینوں کو زرخیز مٹی سے مالامال بھی کردیتی ہے ، پانی کی طغیانی بہت کچھ چھینتی ہے تو بعض اوقات کچھ بیش قیمت چیزیں بھی دامن ارضی میں ڈال جاتی ہے، اسی طرح اسٹرائیک کی ہنگامہ خیزی اور شرر باری نے جہاں دل کی دنیا زیر وزبر کی اور حوصلوں اور عزائم کے سرمایہ کو نذر آتش کیا ، وہیں وہ کچھ متاع بیش قیمت بھی دیتی گئی۔
یہی وہ دور تھا ، جب میری ملاقات ،میری خوش قسمتی نے ایک ایسے گوہر آبدار سے کرائی جس سے رشتۂ اخوت ومحبت جو اس وقت استوار ہواتو اب تک اس میں کوئی ضعف وشکستگی نے راہ نہیں پائی ، بلکہ مزید سے مزید تر پختگی اور مضبوطی ہوتی گئی۔
یہ ہیں میرے دوست ، میرے محسن ، میرے ہمدرد وغمخوار، میرے رفیق وہم نشین جناب مولانا حافظ قاری شبیر احمد صاحب دربھنگوی مدظلہ! ناظم مدرسہ اسلامیہ شکرپور ، بھروارہ