نہیں ! مگر عبارت بہت سلیقے سے پڑھ دی ، مولانا نے فرمایا جاؤ۔ شاید کل پانچ سات منٹ لگے تھے ، مولانا عموماً دیر تک امتحان لیتے تھے ، بیس منٹ آدھ گھنٹہ تو ایک طالب علم کے ساتھ لگ ہی جاتا ، اب جو اتنی جلدی امتحان ختم ہوا، تو ابوالعاص کو شبہ ہوا شاید مولانا نے کسی بات پر ناراض ہوکر جلدی اٹھادیا ہو، وہ بہت تشویش میں پڑا ، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ فارم حلیہ لکھنے والے کے پاس پہونچ گیا ، اور میرا حلیہ لکھا گیا تو قدرے اطمینان ہوا۔ اس کے بعد وہ فارم دفتر تعلیمات میں پہونچ گیا ، ابوالعاص نے وہاں جاکر معلومات کی ، لوٹ کر وہ بہت خوش خوش آیا ، میں نے پوچھا کیاہوا؟ کہنے لگا اس سال تو کسی کو اتنا نمبر نہیں ملا ہے ، جتنا تم کو ملا ہے، سب جدید طلبہ چالیس اور چالیس کے اندر ہیں ، اور تم کو ۴۴؍ نمبر ملے ہیں ۔ مولاناوحید الزماں صاحب سے اس کی امید نہ تھی۔
اب اطمینان ہوا کہ داخلہ تو یقینی ہوگیا ، چنانچہ دوسرے دن اعلان میں نام آگیا ، مگر ایک مرحلہ ابھی باقی ہے ، وہ یہ کہ مدرسہ سے امداد کیونکر جاری ہو، میرے گھر کی وہ حیثیت نہ تھی کہ مطبخ اور دوسری ضروریات کے تکفل کے ساتھ میرا داخلہ ہوتا ، میں چونکہ دیر میں پہونچا تھا ، امدادی داخلہ کا کوٹا پُر ہوچکا تھا، میرا داخلہ اس سے خارج تھا ، اس لئے بظاہر کوئی امید نہ تھی کہ امدادی کوٹے میں میری شمولیت ہوتی ، طلبہ یہ کہتے تھے کہ بعد میں کچھ اور طلبہ اس کوٹے میں شامل کئے جاتے ہیں ، مجھ سے بعض لوگوں نے اس میں شمولیت کی کچھ تدبیریں بتائیں ، مگر وہ پسندیدہ نہ تھیں ، میں نے قبول نہ کیں ، اﷲ تعالیٰ مالک ہیں ، وہ کارساز ہیں ، انھیں کے اعتماد پر میں نے تدبیر کرنے کاارادہ ہی نہیں کیا ۔
داخلے کے مراحل کی تکمیل اور تعلیم کے آغازکے چند ہی دنوں کے بعد اہتمام کی طرف سے اعلان آویزاں ہوا کہ چند طلبہ کی امداد مدرسہ کی طرف سے منظور کی گئی ہے ، اس میں پہلا نام میرا ہی تھا ، اﷲ کی مہربانی کا شکر ادا کیا ، اب یکسوئی کے ساتھ تعلیم شروع ہوگئی ۔
اسباق کی تفصیل:
جو کتابیں اس وقت مدرسہ کی طرف سے میرے لئے متعین کی گئی تھیں ، ان کی