حلوابنانا شروع کیا ، یہ ایک طرح کی پکنک ہوتی ، احباب سب اکٹھے ہوتے ، جس مزاج کے لوگ ہوتے ویسی گفتگو ہوتی ، میرا حلقہ دینداروں اور حفاظ قرآن کا تھا ، اس لئے دینی باتیں ،مسائل کا مذاکرہ ، بزرگوں کے واقعات کا تذکرہ ہوتا ، اس وقت طبیعت کو خوب انبساط ہوتا ۔ میں اپنا حاصل مطالعہ بیان کرتا رہتا، لوگ سنتے بھی اور کام میں بھی لگے رہتے ، اس طرح کے دوتین پروگرام میں میری شرکت ہوئی، یاد آتا ہے کہ دودو کیلو حلوا حصہ میں آیا۔ حلوے کی مقدار زیادہ تھی ، جس کا جی چاہا اس کا کچھ حصہ بیچ دیااور جو رقم لگی تھی اسے خالی کرلیا ، اور باقی حلوا نفع میں مفت پڑا۔ میں نے حلو اچکھا، بہت لذیذ تھا ، مجھے اپنا وہ دوست یاد آیا، مجھے بڑی غیرت آئی کہ میں گاجر کا حلوا کھاؤں اور میرا دوست نانِ شبینہ کا محتاج ہو ، میں نے سارا حلوا فروخت کردیا ، اس کی قیمت میں مجھے پچیس روپئے حاصل ہوئے ، میں نے وہ پوری رقم بھیج دی ، اور طبیعت نے آسودگی اور راحت محسوس کی۔
(۵)
یہاں ایک ایسی بات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ، جس کے تذکرے سے طبیعت رکتی ہے ، کہ اﷲ جانے پڑھنے والے ا س سے کیا اثر لیں ، آپ نے جہاں ’’ افتادِ طبع‘‘ کاعنوان پڑھا ہے ، وہ اسی خاص بات کے تذکرے کے لئے قائم کیا تھا ، مگر طبیعت رک گئی ، اور اس کے دوسرے متعلقات اس نے ڈھونڈ لئے۔ ایک راہ پر قلم چلنے سے ہچکچایا ، تو اسی کے مناسب دوسری راہوں پر نکل چلا، لیکن اصل بات دل میں کھٹکتی رہی ، لکھوں یا نہ لکھوں ؟ پھر فیصلہ کیا کہ جب گفتنی اور ناگفتنی بات زبانِ قلم سے ٹپکتی جارہی ہے تو اسے ہی کیوں کیونکر زندانِ سکوت میں قید رکھوں ؟ اگر قارئین کے انجانے تاثر کا تردد ہی مانع بن رہا ہے ، تو اس ’’حکایت ہستی ‘‘ کی جرأت ہی کیوں کی ؟ اس لئے قلم کو اذنِ بیان دے رہاہوں ۔
میں ذکر کررہا تھا کہ ان دنوں میری طبیعت دنیا اور مشاغل دنیا سے بالکل یکسو تھی ، دنیا کے مشغلوں میں مَیں ضرور تھا ، مگر بیزار بیزار سا! طبیعت اکھڑی اکھڑی سی! امورِ آخرت