مدظلہ کے مدرسہ پوہدی بیلا دربھنگہ میں پڑھا رہوں ، اپنے گاؤں میں بھی ایک مکتب شروع کیا ہے ، اب گاؤں گھر کی دینی حالت بہتر ہے۔
مدرسہ کا ماحول خیر وخوبی سے چلتا رہا ، میں طلبہ کی تربیت میں کوشش کرتا رہا ، پڑھنے پڑھانے کی اچھی فضا بن رہی تھی ، مگر ایک مدرس جو پرانے تھے ، انھیں شاید دکھ تھا کہ مدرسہ میں اتنا پُر سکون ماحول کیوں ہے ؟ وہ جس کے پاس بیٹھتے دوسروں کی شکایت کرتے ، پھر کسی استاذ کے منہ سے بے خیالی میں یاان کی رواداری میں کوئی شکایتی بات کسی استاذ یا انتظامیہ کے کسی فرد کے بارے میں نکل جاتی تو وہ نمک مرچ لگاکر اس بات کو پہونچادیتے ، اس طرح ماحول میں کبھی کبھی کشیدگی کی لہر بھی آجاتی ، سال کے آخر میں بعض ایسی نامناسب باتیں سامنے آئیں کہ میرا دل ٹوٹنے لگا ، میری متعدد شکایتیں انھوں نے انتظامیہ کے کانوں میں پہونچائیں ، مجلس شوریٰ کی میٹنگ ہوئی ، مجھے اس میں طلب کیا گیا ، مجھ سے جو باتیں پوچھی گئیں میں نے ان کا جواب تو دیا ، لیکن اپنی صفائی نہیں پیش کی ، میں بعض حالات کی وجہ سے دلگیر تھا ، اسی مجلس میں میں استعفیٰ پیش کردیا اور میسور جانے کی تیاری کرنے لگا۔
میسور کا سفر :
طلبہ کو مجھ سے انس ہوگیا تھا ، جب میں نے استعفیٰ دیا تو سالانہ امتحان ختم کے قریب تھا ، طلبہ نے سنا تو بے چین ہوگئے ، میں نے انھیں تعلیم کا تسلسل جاری رکھنے کی تلقین کی اور بتایا کہ مجھے میسور جانا تھا ، وہیں جارہا تھا کہ روکا گیا ، میسور والے پورے سال تقاضا کرتے رہے، میں وہیں جارہا ہوں ، البتہ تم لوگ خط وکتابت کے ذریعہ ربط رکھنا ، میں ان شاء اﷲ بہی خواہ رہوں گا ۔
سب سے زیادہ رنج مفتی ابوالقاسم صاحب اور بنارس کے احباب کو تھا ، مگر ان کا انتظام سے کوئی تعلق نہ تھا ، جو صاحب صدر مدرس تھے وہ نہ مجھے پسند کرتے تھے اور نہ مفتی صاحب کو !
مدرسہ کی تعطیل کے بعد میں گھر چلا گیا ، مفتی صاحب نے ۲۰؍ شعبان ۱۳۹۳ھ کے