ہوگئے اور صفیں درست ہونے لگیں تو اچانک بادِ رحمت چلنے لگی ، پانی لئے ہوئے گھنگھور گھٹائیں آسمان پر امنڈنے لگیں ، تمام لوگوں کی آنکھیں بارانِ رحمت کے آثار دیکھ کر خوشی سے چمکنے لگیں ۔ میں نے اعلان کیا کہ اﷲ کی رحمت برسنا ہی چاہتی ہے ، مگر کوئی فرد یہاں سے ہرگز نہ ہٹے ، اس اعلان کے بعد نماز شروع ہوئی ، ایک رکعت کے بعد موسلادھار بارش شروع ہوگئی ، اتنا پانی برسا کہ دوسری رکعت کا سجدہ لوگوں نے پانی میں کیا، بارش ہورہی تھی اور امام نے عیدکا خطبہ پڑھا ، ہرفرد شرابور ہوکر گھرلوٹا ، دن بھر بارش ہوتی رہی اور گرمی کی شدت یکایک کافور ہوگئی ، اور قحط سالی کا منظر شادابی اور خوشحالی سے بدل گیا ، کسان نہال ہوگئے اور سب نے محسوس کیا کہ یہ قلبی اتحاد کی برکت ہے ، عید اچھی گزرگئی ، دنیداری کارنگ جمنے لگا ، تعلیم کا شوق بھی بڑھا۔
ایک عجیب واقعہ:
عید کے دن شام کے وقت یہ بات زیر بحث آئی کہ دس دن مزید قیام کرنا ہے، یہ وقت کہاں گزارا جائے؟ مرکٹّا گاؤں میں مولوی ولی محمد کے گھروالوں نے ایک لمبا سا کھپریل کا کمرہ گاؤں کے مکتب کے لئے متعین کررکھا تھا ۔ مولوی کمال الدین مرحوم اسی میں پڑھاتے تھے اور اسی میں رہتے بھی تھے ، اور اسی کمرے میں ان کا انتقال بھی ہواتھا ، ان کے انتقال کے بعد سے وہ کمرہ بند تھا ، میرے دوستوں نے اب اس کو کھول کر اس کی صفائی ، ستھرائی کردی تھی ، سب کی تجویز یہ ہوئی کہ باقی دس دن میں اسی کمرے میں رہوں ، چنانچہ میری رہائش کااس میں انتظام کردیا گیا، یہ کمرہ شمال وجنوب میں لمبا تھا اور مشرق میں اس کا دروازہ کھلتا تھا ، مغربی دیوار میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی ، اس کے بعد تھوڑی سی زمین غیر آباد تھی ، اس سے متصل مولوی ولی محمدکا رہائشی مکان تھا ، مولوی ولی محمد اپنے گھر سے نکل کر اسی کھڑکی سے کبھی کبھی کمرے میں آتے تھے، عشاء کی نماز کے بعد میرے طلبہ کچھ دیر میرے ساتھ رہے ، پھر میں نے انھیں رخصت کردیا اور باہر کادروازہ اندر سے بند کردیا، کھڑکی کا دروازہ بھیڑ دیا ، بارش کی وجہ سے ہلکی سردی ہوگئی تھی ، وہاں مچھروں کی بہتات تھی اس لئے