سکتا،ایسے منھ سے نکلی ہوئی بات سے انحراف میرے بس کی بات نہیں ،میں دودن مرکز میں رہا، مجھے یہاں بھی کچھ اچھا نہیں لگ رہاتھا کبھی کبھی مجھے ایسا لگتاکہ بعض لوگ میرے بارے میں مشورے کررہے ہیں ، دوروزکے بعد مولانا عزیر صاحب نے فرمایاکہ ایک جماعت کا انتظار تھا وہ آگئی ہے، تم اس میں شامل ہوجاؤ،اس کے امیر ایک بزرگ حافظ محمد یوسف صاحب ہیں ، ان کے ساتھ دہلی ہی میں آٹھ دن لگاؤ۔چنانچہ ان کے ساتھ آٹھ دن دہلی کی مختلف مساجد میں وقت گزارا،دین اوردینی اعمال سے مجھے دلچسپی توپہلے ہی سے تھی لیکن تبلیغی طریقۂ کار سے مجھے دلچسپی نہ ہوسکی،البتہ امیرصاحب سے مناسبت ہوئی، امیر صاحب اچھے حافظ قرآن تھے، تہجد میں بڑے اہتمام سے قرآن کریم پڑھتے تھے اوریقین انھیں کمال درجے کا حاصل تھا، ان دونوں باتوں کی وجہ سے مجھے ان سے بہت مناسبت اورمحبت ہوگئی، تقریر بھی بہت عمدہ کرتے تھے ،ہمارے علاقے میں ایک بہت معروف صاحب علم خطیب مولانا ضمیر احمدصاحب علیہ الرحمہ تھے ،حافظ صاحب کی تقریر جب ہوئی تو مولانا ضمیراحمد صاحب کی خطابت یادآئی،مشکل سے مشکل بات کو آسان کرکے سمجھانے کاایسا ملکہ تھا کہ باید وشاید !روتوں کوہنسانا اورہنستوں کورلادینا، ان کیلئے معمولی بات تھی، آٹھ دن میں ان سے خوب تعلق ہوگیا۔
تبلیغی جماعت میں ایک چلّہ
دہلی کے آٹھ روز ہ دورے کے بعد پھر مرکزمیں آگئے،دوتین دن یہاں قیام رہا اس کے بعدیہ جماعت بنگال کے ضلع بردوان میں بھیج دی گئی یہ جماعت اصلاً کشمیر کے لئے آئی تھی،امیرصاحب سالہاسال سے کشمیر جماعت لے کر جایاکرتے تھے وہ مرکز کے ایک بزرگ منشی اللہ داتاصاحب خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کے مریدومجازتھے، اللہ تعالیٰ نے ایمان کی قوت اوریقین کی پختگی انھیں عطافرمائی تھی، بردوان میں میں ان کے ساتھ چالیس روز رہا،ان سے محبت توبہت ہوئی، مگرجماعت سے مناسبت