دسواں باب
دارالعلوم دیوبندکی اسٹرائیک
( ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۹۶۹ء)
یہ ایک تکلیف دہ موضوع ہے جس کا ذکر اللہ جانے بہترہوگا،یانہیں ؟ تاہم جب سب حالات لکھ رہاہوں توا س کے حالات بھی لکھ دوں کہ اس کے صحیح حالات کاجاننے والا میرے اورمولانا طاہر حسین صاحب گیاوی کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے ایک صاحب اور ہیں ،مگر وہ پوشیدہ تھے، اوراب بھی پوشیدہ ہی رہنا چاہتے ہیں ،اس تحریر میں بھی ان کا نام کہیں نہیں آئے گا۔
میراداخلہ شوال ۱۳۸۸ھ میں دارالعلوم دیوبند میں ہوا،میں اپنے تصورات میں دارالعلوم کو، اور دارالعلوم کے اساتذہ کو جیسا سمجھ رہاتھا ویسانہیں پایا، کوئی بھی ادارہ جب پراناہوجاتاہے اوراس پر بڑھاپاآجاتاہے تو بڑھاپے کی کمزوریاں اس کے عوارض وامراض اسے لاحق ہوجاتے ہیں ، دارالعلوم دیوبند کوبھی میں نے بڑھاپے کی کمزوریوں کا شکارپایا،ہم لوگ سنتے تھے کہ ایک دورایسا تھاکہ دارالعلوم کے شیخ الحدیث سے لے کر دربان تک صاحب نسبت ہواکرتے تھے،اب حال ایساتھا کہ ابتدائی دینداری بھی نچلی سطح کے ملازمین میں مشکل سے ملتی تھی،حضرات اساتذہ کے احوال بھی بکثرت قابل اعتراض تھے ، داخلہ کے وقت ہی ایسے حالات پیش آئے کہ طبیعت ٹوٹ ٹوٹ کر رہی، خیر ہم تو پڑھنے آئے تھے جی میں ٹھان لیاتھاکہ جو بھی ہوہم جس مقصد کیلئے آئے ہیں اس کوحاصل کریں اور خیروعافیت کے ساتھ فارغ ہوکرجائیں ۔ طبیعت اس پر جمی ہوئی تھی کہ خرابیوں کو دیکھو،اوران سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے رہو،اور آئندہ زندگی میں ان سے اجتناب کو اپنا شعار بناؤ۔