قرأت کی اوقات درس میں گنجائش نہ رہی ،لیکن استاذ سے تعلق برقراررہا،خارج میں کچھ مشق کرلیا کرتے تھے،مگر کوئی باضابطہ نظام نہ تھا اسی لئے اس سال تجوید کے سالانہ امتحان میں شریک نہ ہوسکے، عربی پنجم کے سال میں قاری صاحب کے یہاں گنجائش نہ تھی اس وقت احیاء العلوم کے طلبہ میں عام دستورتھاکہ دلہن پورہ جاکر وہاں کے قاری صاحبان سے اعزازی درس لیاکرتے تھے ،اس درس کو بھی مدرسہ کی جانب سے منظوری حاصل تھی مدرسہ کے امتحان میں یہ طلبہ شریک ہوتے تھے اورمدرسہ سے انھیں سند ملتی تھی۔
دلہن پورہ میں دوقاری بہت مایہ ناز اوربڑے استاذتھے ایک حضرت قاری عبدالحی صاحب نوراللہ مرقدہ دوسرے حضرت قاری محمدادریس صاحب نوراللہ مرقدہٗ ،ان دونوں حضرات کے شاگرد بکثرت تھے، ہم نے جب دلہن پور ہ کا رخ کیاتو حضرت قاری عبدالحی صاحب کاانتقال دوسال پہلے ہوچکاتھا، ہمارے ساتھیوں نے قاری محمدادریس صاحب سے درخواست کی ،قاری صاحب نے بخوشی منظورفرمالیا ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد فوراً پہونچ جاتے تھے قاری صاحب ایک گھنٹہ پڑھاتے تھے،اس طرح قرأت حفص کی تکمیل ہوگئی،الحمدﷲ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ۔
جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے احاطہ میں یہ میراآخری سال تھا، جوشعبان ۱۳۸۸ھ میں پوراہوا، اس کے بعد دیوبند جاناہے ،دیوبندجانے کی ناتمام داستان بہت دنوں پہلے میں نے لکھی تھی وہ تحریر میری قسمت سے محفوظ رہ گئی جو کسی طرح عزیزم مولوی ضیاء الحق سلمہٗ کے ہاتھ لگ گئی اس طرح اب تک محفوظ ہے،انھیں اوراق کے ساتھ اسے بھی نتھی کرنے کا ارادہ ہے، اس سے پہلے چاہتاہوں کہ احیاء العلوم مبارک پور سے جو مجھے تعلق ہے اوراس کے جو مجھ پر احسانات ہیں انھیں اس تفصیل کے بعد اجمالاًلکھوں ۔
احیاء العلوم؟وماادراک ما احیاء العلوم؟ھی نعمۃ کبیرۃ انعم اﷲ بھا علینا وعلی المسلمین،میں جب مکتب کی تعلیم سے فارغ ہواتو اب کیاکرناہے؟