مولوی مشتاق احمد تھے، ہم دونوں اکٹھا ہوتے تو باہم عربی بولنے کی کوشش کرتے ،اور سننے والوں کی نظر میں تفریح کا سامان بن جاتے ، مگر انھیں کوئی پروا ہوتی اور نہ مجھے ! ہم اپنی گفتگو میں محو ہوتے۔
میں تلاش کرتا رہتا کہ کوئی عربی بولنے والا ملے ، اسی دوران تبلیغی جماعت کے دورے میں عرب کے کچھ لوگ آئے ، ان میں ایک صاحب مراکش کے رہنے والے تھے ، اور ایک صاحب شام کے ! مراکشی ذرا معمر تھے اور شامی نوجوان! دونوں فصیح عربی بولتے تھے ، میں سایہ کی طرح دونوں کے ساتھ لگ گیا، درس کے علاوہ ہمہ وقت ان کے پاس بیٹھا،عربی میں باتیں کرتارہتا، وہ بڑی شفقت کا معاملہ کرتے ، تین چار دن یہ لوگ جامع مسجد میں رہے ، میرا زیادہ وقت انھیں کے پاس گزرتا ، اچھی خاصی مشق ہوگئی تھی ، تین چار دن کے بعد یہ لوگ اعظم گڈھ چلے گئے ، میں منتظر تھا کہ جمعرات آئے تو میں بھی اعظم گڈھ پہونچوں ، چنانچہ جمعرات کی چھٹی ہوتے ہی میں نے سائیکل اٹھائی اور اعظم گڈھ جامع مسجد پہونچ گیا ، وہ دونوں مل کر بہت خوش ہوئے ، پھر میں ان کے ساتھ سنیچر تک رہا ، مجھے بڑی خوشی تھی کہ میں عربی بولنے پر بے تکلف قادر ہوگیا ہوں ۔
چند اہم واقعات
اس سال درسی اورغیر درسی کتابوں کے مطالعہ میں چند واقعات ایسے پیش آئے جو دل ودماغ پر اب تک نقش ہیں ،ان واقعات کوکاغذ میں محفوظ کردیناچاہتاہوں ۔
(۱)… طالب علمی کا دور بھی عجیب دور ہے، کبھی کسی جگہ آدمی اٹکتاہے تو دیرتک اٹکارہتاہے اورجب نکل جاتاہے تو سوچتاہے کہ یہ کون سی اٹکنے کی جگہ تھی، میں مجلہ الحج پڑھ رہاتھا ،رات کے بارہ بجے کاعمل تھا اس میں ایک لفظ آیا’’ثوان‘‘ اس پر اٹک گیا ،پہلے سیاق وسباق سے سمجھنے کی کوشش کی مگر نہیں حل ہوا،پھر لغت کی کتابیں الٹنی پلٹنی شروع کیں ،مگر مادہ ہی نہیں سمجھ میں آرہاتھا کافی دیر تک جھک مارتا رہا، لغت کی ہر کتاب دیکھ لی لیکن کچھ سراغ نہ ملا، مادے میں جو جو احتمالات تھے سب ڈھونڈ لئے مگر اندھیرا ،خیال ہواکہ پہلا حرف ثاء ہے