توایک چھوٹی بہن تھی اورمیری سوتیلی والدہ، یہ دونوں اس پر کام کرتیں ، میں جب گھر آگیااورحفظ قرآن کی تکمیل تک گھر پر رہنا طے ہوگیاتو میں نے دستور بنالیا، کہ حافظ صاحب کو جب سبق سناکرآتا، توکرگہہ میں بیٹھ جاتا، اورچارگھنٹے متواتر کپڑابنتا رہتا، اس چار گھنٹے میں تھوڑی دیرکے لئے بھی میں باہر نہ نکلتاچار گھنٹے میں ایک فینسی ساڑی تیارہوجاتی، پھر میں اس سے نکل آتا اورکل تک کیلئے اس سے میری فرصت ہوجاتی۔
اس کرگہہ میں کپڑے کی بنائی میں ہاتھ ،پاؤں اورنظرتینوں کا پورا استعمال ہوتا،مگر میراشوق مطالعہ یہاں بھی راہ ڈھونڈتا رہا، میں یہ کرتاکہ کپڑا جو ایک لکڑی۔۔۔۔۔جسے ’’طور‘‘ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں لپٹتارہتا، اس پرمیں کتاب اپنے بائیں طرف کھول کر رکھ لیتا، ہاتھ اپنا کام کرتایعنی سانچہ چلاتا،پیراپنا کام کرتا، مگرنگاہ کتاب پررہتی، اورمیں پڑھتارہتا،اللہ جانے کتنی کتابیں میں نے اس طرح پڑھ ڈالی ہیں ۔
تدریس
پڑھنے اورپڑھانے کاذوق وشوق فطری ہے میں نے سوچاکہ کچھ پڑھانے کا بھی مشغلہ چاہئے ،میرے دینی ذوق اورپڑھنے کے شوق اوروعظ وتقریر کے ملکہ کی وجہ سے گاؤں کے دیندار نوجوان مجھ سے بہت قریب ہوگئے تھے، میں نے خصوصیت سے حفاظ سے کہاکہ آپ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر اس کا معنی نہیں جانتے، توایساکریں کہ ایک وقت متعین کرلیں اورعم پارہ کی سورتیں جوزیادہ تر نمازمیں پڑھی جاتی ہیں ،میں ان کا ترجمہ آپ لوگوں کو پڑھادوں گا ،حافظ محمد یوسف صاحب امیرجماعت کے عمل سے اس کا تجربہ بھی ہوچکاتھا، سب نے خوشی سے اسے قبول کیا اورمغرب بعد کا وقت مقررہوگیا اورمیں نے الحمد شریف سے ترجمہ شروع کرادیا کچھ ہلکے پھلکے قواعد بتاتا،الفاظ کے معنی بتاتا اورحروف ربط سمجھاتا، اور ترجمہ یادکرادیتا،میرا حفظ چلتارہا،میرے حفظ میں چھ ماہ کی مجموعی مدت لگی، تیسواں پارے اورسورہ یوسف کا ترجمہ اتنی مد ت میں پورا ہوا،اورحفاظ نے خوب یاد کرلیا۔