جس کو میں اس وقت حل نہ کرسکا، میں سوچتا ہی رہ گیا، ابھی دریافت کرنا مناسب نہ سمجھا، کچھ دیر کے بعد ظہر کی اذان ہوئی۔
مسجد کا منظر:
یہ پہلی نماز ہے، جو اس مقدس سرزمین پر ادا کی جائے گی ، یہ وہ خاک پاک ہے جہاں کبھی اکابر اولیاء اﷲ کی پیشانیاں جھکا کرتی تھیں ، ان کے تقدس کو اس زمین نے اس طرح جذب کیا ہے کہ وہ خود ہی تقدس کا نشان بن گئی ہے، مسجد میں حاضری ہوئی ، مدرسہ کی وسعت وعظمت کے لحاظ سے مسجد بہت چھوٹی اور مختصر معلوم ہوئی، لیکن یہ احساس ایک لمحے کے لئے دل میں پیدا ہوا، اور اسی وقت فنا ہوگیا جب طالب علموں کے ہجوم پر نگاہ پڑی، جو پروانوں کی طرح ٹوٹے پڑرہے تھے، اور ان کے درمیان کوئی استاذ دکھائی دے جاتا، تو ایسا محسوس ہوتا ستاروں کے ہالہ میں چاند چمک رہا ہے۔
یہ کون آرہا ہے ؟ جسے دیکھتے ہی طلبہ سمٹنے لگے ، خود بخود نگاہیں جھک گئیں ، آنے والا اکیلا آرہا ہے، مگر اس کے جلو میں رعب وہیبت کا لشکر فراواں بھی چلاآرہا ہے، نکلتا ہوا قد ، گورا چٹا چہرہ، سرخ وسفید رنگت، صحت مند جسم ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ شیشہ کا بدن ہے، اور اس کے اندر سرخی اچھل رہی ہے، نہایت صاف ستھرا اجلا لباس ، لمبا کرتا، مخصوص شرعی پاجامہ ، سر پر اونچی دوپلی ٹوپی، اس کے نیچے سفید پٹھے ، جن میں بالوں کی کمی نمایاں تھی، داڑھی بھی سفید برق، ساٹھ پینسٹھ کی عمر، ہاتھ میں ایک کالا بیگ! میں نے ساتھیوں سے سرگوشی کی،یہ کون صاحب ہیں ؟ مولانا معراج الحق صاحب ہیں ، دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم، اصول وضوابط پر بے لچک عمل کرنے والے، طلبہ وملازمین پر یکساں ہیبت قائم !
ٍ ابھی نگاہیں ان کے خد وخال کا جائزہ لے رہی تھیں کہ دوسری جانب سے ایک اور صاحب نمودار ہوئے، جو تنہا نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ طلبہ کاہجوم تھا، پستہ قد، سیاہ فام ، شکل وصورت،حسن وجمال سے عاری، اور اس پر طرہ یہ کہ سر سے پاؤں تک کالا لبادہ، موسم سردیوں کا تھا ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سیاہی مجسم ہوگئی ہے، اس کے باوجود انھیں دیکھتے رہنے کا