بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تمھید
آج سے تقریباً پندرہ بیس سال قبل میں نے کتابوں کے مطالعے کے موضوع پر ایک آپ بیتی پڑھی تھی ، مجھے اس موضوع سے بڑی دلچسپی ہے ، مجھے خیال آیا کہ حضرت الاستاذمولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی مدظلہ کے مطالعہ کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے ، جس کے بعض حصے مولانا طلبہ کی تشجیع کیلئے کبھی کبھی بیان کرتے ہیں ۔ جی چاہا کہ اگر یہ داستان مولانا قدرے قلمبندکردیتے تو رہروانِ راہ علم کے لئے ایک روشن نمونہ ہوتا۔ میرے دل کی یہ بات زبان پر آئی ، لیکن فرصت نہ ہونے کی وجہ سے مولانا ادھر توجہ نہ دے سکے ، حسن اتفاق کہئے بلکہ مشیئت الٰہی کی منظوری کہئے کہ بیرون ملک کے ایک سفر کے سلسلے میں دہلی میں تین ہفتے تک انتظار میں ٹھہرنا پڑا۔ میں نے اپنی درخواست دہرائی، اور مولانا نے وہیں لکھنا شروع کیا، مگر جیسے جیسے رہوار قلم آگے بڑھتا گیا ، مطالعہ کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ داستانِ حیات کے دیگر گوشے اور زندگی کی دوسری تفصیلات بھی اس میں شامل ہوتی ہوگئیں ،اور اس مضمون نے خود نوشت سوانح کی شکل اختیار کرلی ۔ اس تحریر کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سعی وکاوش اور جہد وطلب کے نتیجہ میں انسان بلندیوں کے کن مقام پر پہونچ جاتا ہے، خدا کرے یہ تحریر دوسروں کے لئے بھی حوصلوں کی بلندی اور عزائم میں استحکام کا سبب بنے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور اعظم گڈھ
یکم جمادی الاخریٰ ۱۴۳۲ھ مطابق۵؍ مئی ۲۰۱۱ء
جمعرات
٭٭٭٭٭