یہ حجرہ بس اتنا بڑاتھا کہ اس میں مَیں نماز پڑھ سکتااور لیٹ سکتاتھا ،دوایک کتاب اس میں رکھی جاسکتی تھیں ، میں عام اوقات میں اسی حجرے میں رہتاگرمی محسوس ہوتی توصحن میں نکل آتا، یہ مکان چونکہ خالی تھا اس لئے کسی کی آمدورفت اس میں نہ تھی ،صحن کے آدھے حصے کی گھاس میں نے صاف کرلی تھی اس میں وضوکرنے اورنمازپڑھنے کی جگہ متعین کرلی تھی مطالعہ کا جنون توشروع سے تھا،اس کی گرفت سے طبیعت آزاد نہیں ہوسکتی تھی، اس دو رمیں عموماً دینی کتابیں ،بزرگوں کے احوال اوراہل تصوف کی تصنیفات وملفوظات زیر مطالعہ رہتے ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی کتاب فضائل صدقات کا مطالعہ مسلسل کرتا ،خواجہ فریدالدین عطار کی تذکرۃ الاولیاء شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ کی شرح فتوح الغیب (فارسی)امام ربانی حضرت مجددالف ثانی قدس سرہ کے مکتوبات کامطالعہ کرتارہتا، ان سب کتابوں سے اللہ کی محبت بڑھتی، شریعت کی عظمت دل میں جاگتی،دنیا سے دل سرد ہوتا، یہ سب مطالعے تھکن کے اوقات میں کرتا، ورنہ اصل کام حفظ کلام اللہ شریف کاتھا۔
حافظ احمدکریم صاحب علیہ الرحمۃ
ہمارے گاؤں کے بزرگ حافظ قرآن حضرت حافظ احمدکریم صاحب تھے ،یہ گاؤں کے تمام حفاظ کے استاد تھے،حافظ صاحب کسی مدرسہ میں نہیں اپنے گھر پر طلبہ کو بلاکر پڑھایا کرتے تھے ان کے پاس دو وسیع وعریض مکان تھے ایک رہائشی اورایک غیر رہائشی ، جسے عرف میں ’’حاطہ‘‘ کہاجاتاہے،(یہ احاطہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے)جن طلبہ کو حفظ کرناہوتاوہ اسی حاطے میں آکر بیٹھتے اورقرآن یادکرتے،حافظ صاحب وقت فارغ کرکے سن لیاکرتے ، حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات سے نوازاتھا ،تھے تو مختصر جثہ وبدن کے،ہلکاپھلکا چہرہ اس پر ناتمام سی داڑھی،مگر رعب اس درجہ تھا کہ ان سے سب طلبہ تھراتے تھے کبھی میں نے انھیں مارتے نہیں دیکھا، ہاں ڈانٹتے تھے آوازبہت کراری تھی ،زبان میں