دوسرا باب
مکتب کی تعلیم
حافظہ کو میں نے چھیڑاہے تواس نے پچھلی تمام یادوں پر سے پردہ ہٹادیا، اب وہ یادیں مصر ہیں کہ انھیں بھی قید تنہائی سے رہائی ملے، مطالعہ کی ابتدائی داستان جب مجمع عام میں آگئی اوراس کے ساتھ لگی لپٹی بعض غیر متعلق یادیں بھی صفحہ قرطاس پر آگئیں ،تو اب جو یادیں دماغ کے محافظ خانہ میں باقی رہ گئی ہیں وہی کیوں دبکی پڑی رہیں ،ان کا بھی تقاضا ہے کہ الفاظ کا لباس پہن کر تماش بینوں کے سامنے جلوہ گر ہوں ۔ دل نے اس تقاضے کو تسلیم کیااورقلم کو حکم دیا کہ اورکچھ لکھنے سے پہلے اسے لکھو۔ا س داستان میں میراماحول ملے گا ، بچپن کی بے چارگی ومسکینی ملے گی ،مکتب میں اساتذہ کے سامنے بیٹھنے کا ذکر آئے گا، جس زمانے سے گزرکر میں عمر کی اس منزل تک پہونچاہوں وہ پھر تازہ ہوجائے گا ۔
میری پیدائش کی تاریخ والد صاحب کی کسی کاپی میں لکھی ہے، بچپن میں مَیں نے اسے دیکھا تھا تاریخ ہے ۵؍ فروری ۱۹۵۱ء دن دوشنبہ کا تھا ۔میری بڑی والدہ بتاتی تھیں کہ تم ۲۸؍کادن گزارکر رات میں پیداہوئے تھے، جو رات ابتداء سے انتہاتک اندھیری ہوتی ہے چاند ایک لمحہ کیلئے بھی افق پر سر نہیں ابھارتا۔میں نے بعد میں ۵؍فروری کی مطابقت تقویم میں دیکھی تو وہ ۲۸؍ربیع الآخر ۱۳۷۰ ھ کی تاریخ پڑتی ہے۔
میری بڑی والدہ کہتی تھیں کہ تم اندھیری رات میں پیداہوئے تو عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ چورہوگا ،چوروں کی رات میں پیداہواہے ۔سناہے کہ ۲۹؍ ویں رات میں چور چوری کرنے نکلتا ہے، اگراس رات میں وہ کامیاب ہوگیا تو پورا مہینہ اس کے حق میں ’’بخیر‘‘ ہوتاہے۔بڑی والدہ کو یہ سن کر صدمہ ہوا،انھوں نے اس کا تذکرہ بڑے والد صاحب