آمدورفت رہی،بعض طلبہ مجھ سے ہمدردی رکھتے تھے انھیں کچھ دوسرے طلبہ نے بہت ماراپیٹا اس سے مدرسہ میں ایک بدمزگی پیداہوگئی مارنے والوں کااخراج عمل میں آیا۔
میں نے قصبہ میں جانا ترک کردیا ایک روز میں کہیں گیاہواتھا، شام کو واپس آیاتو معلوم ہواکہ مولوی طاہر حسین صاحب آئے ہوئے ہیں ان سے ملاقات ہوئی،وہ ایک ہفتہ تک میرے گھررہے، روزمشورے ہوتے رہے کہ کیاکرنا چاہئے۔دارالعلوم دیوبند سے ہندوستان کے تمام طول وعرض میں یہ بات مشتہر کردی گئی تھی کہ اس ہنگامے میں ۳۵؍طلبہ کا اخراج ہواہے ، ان کی فہرست ہر مدرسے کوبھیج دی گئی،اس طرح پورے ملک میں ہم لوگوں کی شہرت بدنامی کے ساتھ ہوگئی، سرفہرست ہمیں دونوں کے نام تھے، اب توکسی مدرسے میں داخلہ ممکن نہیں ،میں کہتااب خاموش بیٹھو،مولوی طاہر کہتے کہ نہیں کہیں نہ کہیں داخل ہوکر پڑھ لیناچاہئے ورنہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے، ہفتہ بھر اسی موضوع پر بحث ہوتی رہی مولوی طاہر ہمت کے مضبوط اوربات کے دھنی ہیں ،انھوں نے مجھے مجبورکیاکہ میں ان کا ساتھ دوں ، ہم نے بہت سوچاکہ وہ کون سامدرسہ ہوسکتاہے جو ہمیں اس جرم کے بعد بھی قبول کرلے، ندوہ توہونہیں سکتا کیونکہ حضرت مولاناعلی میاں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،سرائمیر کے مدرسۃ الاصلاح پر نظرآکر جمی۔
٭٭٭٭٭
مدرسۃ الاصلاح سرائمیر کے چند دن
ہم دونوں ایک روز اٹھے اورسرائمیر مدرسۃ الاصلاح میں جاپہونچے مولانا بدرالدین صاحب علیہ الرحمہ اس وقت ناظم تھے، ان سے ملاقات ہوئی ان سے عرض کی گئی وہ ایک لمحے کیلئے سکتے میں آگئے،پھر فرمایاکہ آپ لوگ ٹھہر ئیے میں مشورہ کرلوں ، انھوں نے چند گھنٹوں کے بعد ہمیں بلایا اورفرمایاکہ آپ لوگوں کاداخلہ منظورہے بہت خوشی ہوئی، ہرجگہ کے راندے ہوئے جب ایک جگہ پناہ محسوس کریں تو اس وقت تشکر وامتنان اورخوشی وراحت کی کیاکیفیت ہوئی ہوگی کوئی کیا بیان کرے۔