۱۳۸۹ھ کا سال تھا ،اورشعبان کے نصف کے پہلے وہاں سے روانہ ہوگئے ، لیکن چونکہ یہ سرزمین میری محسن سرزمین ہے، اس لئے اس سے بہت زیادہ محبت ہوگئی آج بھی جب امروہہ کا تصور آتاہے یاکوئی امروہہ کا نام لیتاہے تو میرے دل پرمحبت کی پروائی چلنے لگتی ہے، ایک میٹھامیٹھا درددل میں ہونے لگتاہے،سفرمیں اگر کبھی ٹرین امروہہ سے گزرنے والی ہوتی ہے تومیرے اوپر ایک بے خودی سی طاری ہونے لگتی ہے ، اکثرایساہواکہ ٹرین امروہہ میں رکی نہیں اورمیں دیرتک دل بیتاب کو سنبھالتا رہ گیا۔
ایک بار ٹرین اتفاق سے وہاں رک گئی، حالانکہ رکنے والی نہ تھی میں بیقرار ہوگیا، اپنے رفیق سفر سے کہایہاں اترجاؤ ؎ قفانبک من ذکری حبیب ومنزل
اورپھر ہم دونوں اترگئے چوبیس گھنٹے وہاں رہے پھر جہاں جاناتھا گئے۔
امروہہ کی سرزمین سے کئی یادیں وابستہ ہیں جنھیں میں فراموش نہیں کرسکاہوں ، انھیں بغیر کسی ترتیب کے لکھتاہوں ۔
(۱)نمازوں کی پابندی کااہتمام
نمازیں پڑھنے کامزاج تو شروع طالب علمی سے ہے مگر جیسا چاہئے اس کا اہتمام نہ تھا، نماز پڑھتا ضرورتھا،مگر قرآن میں اقامۃ الصلوٰۃ کا جوحکم ہے اس پر عمل نہ تھا نمازقضا ہوگئی کوئی فکر نہیں سوتے رہ گئے کوئی قلق نہیں ،بالخصوص سفر میں نمازیں قضاہوگئیں ،اوردل نے انقباض نہیں محسوس کیا، امروہہ میں داخلہ کے بعد جب بقرعید کی تعطیل ہوئی تو گھرجانے کا پروگرام بنا ،میں اورحافظ الطاف حسین صاحب ساتھ ہی وطن واپس ہوئے وہ اعظم گڑھ اسٹیشن پر اترے اورمیں محمدآباد ، اس سفر میں پانچ نمازیں قضاہوئیں مگر دل ذرابھی میلا نہ ہوا،گھر پر جتنے دن مقدرتھا رہے واپسی کی تاریخ متعین تھی ، حافظ الطاف حسین صاحب مجھے اعظم گڑھ میں ملتے،میں روانگی سے ایک دن قبل گاؤں کی کھپریل مسجد میں بعدنمازظہر اکیلا بیٹھا تصورات کی دنیا میں غرق تھاکہ اچانک دل پر ایک روشنی پھیلی، اورمیں دیکھنے لگاکہ حدیث کی تمام کتابوں میں نمازکی اہمیت،اس کے وجوب، اس کی تاکید کے متعلق مسلسل حدیثیں پڑھی