لینے نہ دیتی ، وہاں کے پرانے طالب علموں میں دو طالب مولوی محمد عابد اور مولوی خورشید میری بڑی خدمت کرتے تھے ، ان دونوں نے میری بے قراری دیکھی تو از خود ڈاک کا پتہ لگانا شروع کردیا ، ایک روز چلچلاتی دھوپ میں مولوی محمد عابد کتابوں کا بنڈل لئے ہوئے آئے ، میں دیکھ کر بے خود ہوگیا ، عابد نے بتایا کہ بڑے ڈاک خانے سے لے کر آیا ہوں ، بڑا ڈاک خانہ مدرسہ دینیہ سے بہت دور دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ، اس گرمی میں ، دوپہر میں عزیز موصوف کا وہاں تک پیدل آناجانا مجھے بھاری معلوم ہوا ، مگر وہ خوش تھے کہ ایک خدمت تو مجھ سے بن پڑی ! میں نے بڑی دعائیں دیں ، پھر تو میں تھا اور معرفت حق کی یہ جلدیں تھیں ۔
زندگی میں ایک خوشگوار اضافہ:
ہمارے ماحول ومعاشرے میں اور ہمارے علاقے میں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح کے بعد دلہنیں اپنے سسرال میں مشترک خاندان کا ایک حصہ بن کر رہتی ہیں ،بیٹا اپنے والدکی کفالت میں ہوتا ہے ، اس کی بیوی بھی اسی گھر کی کفالت میں ہوتی ہے، بیٹا اگر گھریلو ذریعۂ معاش میں ہے تو والدین سے علیٰحدہ رہنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ، اگر وہ گھر سے باہر کہیں دوسری جگہ کسی مشغلہ میں ہوتا ہے ، تب بھی اس کی بیوی اپنی سسرال میں اپنے خسر اور ساس کے ساتھ رہتی ہے ، یہ رسم اس قدر پختہ ہے کہ اس کے علاوہ سوچنے کی بھی گنجائش نہیں ہے ، اگر کسی نے اس کے خلاف سوچا یا عمل کیا تو وہ پورے معاشرہ میں نکو اور گھر والوں کی نگاہ میں نالائق بن کر رہ جاتا ہے ، حالانکہ معاشرے کی یہ رسم شرعاً اتنی قباحتیں رکھتی ہے کہ ان کی اصلاح مشکل ہے۔
میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ، میں بنارس پڑھاتا رہا اور میری اہلیہ میرے گھر والد صاحب کے ساتھ رہی ، اس دوران بعض ناخوشگواریاں ہوئیں ، میری بڑی بیٹی یہیں تولد ہوئی، میں غازی پور آیا تو میری اہلیہ زیادہ تر اپنے میکے میں رہی ، کچھ وقت والد صاحب کے گھر رہی۔