ریویوکرنے کے لئے بالکل تیار ہوجاتے ۔ ( حیاتِ شبلی ،ص: ۵۹۹)
علامہ شبلی کے اس طریقۂ مطالعہ نے میرے لئے سرعتِ مطالعہ کی راہ ہموار کی۔
ہمدرد دواخانہ دہلی سے میرے بچپن میں ایک ماہانہ رسالہ بنام ’’ ہمدردصحت ‘‘ شائع ہوتاتھا ، اس کے ایک شمارے میں مطالعہ کی رہنمائی کیلئے ایک دلچسپ مضمون شائع ہواتھا ، میں نے اسے پڑھاتھا ، اس کے مضامین منتشر طورسے میرے ذہن میں تھے ، اسی کی روشنی میں مَیں نے سرعت مطالعہ کی بنیاد ڈالی تھی ، اس وقت ہر مضمون ، ہر کتاب اور ہر رسالہ حرفاً حرفاً مکمل پڑھتاتھا ، پھر ایک وقت آیا کہ جس مضمون پر نگاہ پڑتی ، اس کا بڑا حصہ یااس کا کوئی جزو ذہن وحافظہ میں محفوظ پاتا، پس حرفاً حرفاً پڑھنے کی حاجت باقی نہ رہی ، ایک نظر ڈالتا اور ساری بات ذہن میں جگمگا جاتی ، جیسا کہ علامہ شبلی نے فرمایا ، واقعہ یہ ہے علامہ شبلی کا مطالعہ کے باب میں میرے اوپر بڑا احسان ہے ، ان کی زندگی سے ، ان کی کتابوں سے اور ان کے مقالات سے میں نے مطالعہ کرنا سیکھا، بات کو سمجھنا سیکھا ، عمدہ طرز میں بیان کرنا اور لکھنا سیکھا، اﷲ تعالیٰ انھیں غریقِ رحمت کرے۔
(۲)
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے بعد عزم وہمت کا ایک نیا ولولہ پیدا ہوا تھا ۔ مولانا وحید الزماں صاحب کے قرب اور ان کی توجہ نے اس ولولہ کو دوآتشہ کردیا ،میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ہمراہ تعلیم کے ایک نئے حوصلے کی تعمیر کررہاتھا ، ایسے دو ساتھیوں کے نام اس وقت یاد آرہے ہیں ۔ ایک مولانا مفتی عزیزالرحمن فتح پوری،اور دوسرے مولانا عباد الرحمن بلندشہری!
یہ دونوں الگ الگ ذوق ومزاج کے مالک تھے اور میری دونوں سے الگ الگ دوستی تھی ، مولوی عزیز الرحمن فتح پور ہنسوہ کے رہنے والے ، حضرت مولانا قاری سیّد صدیق احمد صاحب علیہ الرحمہ کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کرکے اسی سال دیوبند میں داخل ہوئے تھے ، یہ ترتیب کے اعتبار سے مجھ سے ایک سال آگے تھے ۔ میں جلالین شریف کی جماعت