تقریر کا حکم دیاتھا، میں نے علم کے سفر کے موضوع پر تقریر کی ،کہ علم آسمان سے نازل ہوا،اس کے نزول کا آغاز غارحرا سے ہوا، اوراس کی تکمیل مدینہ طیبہ میں ہوئی، پھر اس علم نے کہاں کہاں کاسفرکیاکوفہ،بصرہ،بغداد،قرطبہ،غرناطہ،شام،دمشق فلسطین،مصروقاہرہ،دہلی،سرہند، لکھنو ، دیوبند وغیرہ کن کن منزلوں سے ہوتاہواکہاں کہاں پہونچا، یہ تقریر برجستہ تھی آدھ پون گھنٹہ تک ہوئی، اس کے بعد مولانا عبدالسلام صاحب کے ہاتھوں دستار باندھی اورسند دی گئی۔
خواب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زیارت
جلسہ رات کے ساڑھے بارہ بجے تک چلا،صبح کو فجر کی نمازکے بعد ٹرین تھی ،اس سے وطن کی روانگی تھی، جلسہ کی ہماہمی کے بعد نیند آگئی،خواب میں دیکھتا ہوں کہ میری بڑی بہن جومیرے لئے بمنزلہ ماں کے ہے، گھر سے اطلاع آئی ہے کہ اس کا انتقال ہوگیاہے، میں سخت حیران وپریشان ہواکہ نہ میں نے اس کی کوئی خدمت کی اورنہ میں اسے دیکھ سکا، اسی پریشانی میں مدرسہ کے باہر نکلا باہر ایک لمبا چوڑا ساچبوترہ ہے دیکھتاہوں کہ اس پر ایک قبر ہے اوروہ کھلی ہوئی ہے ،مجھے خواب میں یہ محسوس ہواکہ یہ صاحبزادیٔ رسول حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی قبر ہے میں قبر کے کنارے بیٹھ کررونے لگا، اوراماں اماں پکارنے لگا ، پھر دیکھتاہوں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا قبرسے باہر لیٹی ہوئی ہیں ،اورسر اقدس میرے زانو پر ہے،آنکھیں بند ہیں میں اوربے قرار ی کی حالت میں اماں اماں رٹنے لگا،اماں نے آنکھیں کھول دیں ،فرمایاکیابات ہے؟ میں نے کہادیدی(بہن)کہاں ہے؟ انھوں نے فرمایا جنت میں ہے،مت روؤ،مجھے قبر میں اتاردو،میں نے بہت احترام سے اماں کو قبر میں اتار دیا، اورمٹی برابرکردی،اتنے میں آنکھ کھل گئی، اللہ جانے ا س کی کیا تعبیر ہے؟
پھر خیمہ اکھڑ گیا،طناب ٹوٹ گئی،اورہم لوگ صبح کوگھرکے لئے روانہ ہوگئے۔
امروہہ کی چند ناقابل فراموش یادیں
امروہہ میں پورے بارہ مہینے رہنے کا اتفاق نہیں ہوا،شوال کے نصف کے بعد آیاتھا،