ان طلبہ سے مجھے پہلے سے انس تھا ، ان کے آجانے کی وجہ سے ، میری طبیعت بندھ گئی ، یہ طلبہ معمر بھی تھے ، سنجیدہ اور فہیم بھی تھے ، محنت سے پڑھنا بھی جانتے تھے ، ان کے آجانے کے بعد میرے اندر تعلیم وتربیت کا نیا جوش وولولہ پیدا ہوا۔
مجھے محنت کاایک میدان مل گیا ، مغرب کی نماز کے بعد ہر روز میں ان طلبہ کو لے کر بیٹھ جاتا ، آدھ گھنٹہ علم کی ترغیب وفضیلت ، اس کے لئے کوشش ومحنت کی اہمیت ، علماء کے واقعات ، محنت کے نتائج بیان کرتا، پھر ان کے پڑھنے اور مذاکرہ ومطالعہ کی نگرانی بھی کرتا ۔ اس سے آناً فاناً مدرسہ میں تعلیم کا ایک اچھا ماحول بن گیا ، اس وقت میں بالکل یکسو تھا ، اپنے مطالعہ، وظائف اور طلبہ کی تعلیم کے علاوہ کوئی مشغولیت نہ تھی ، میں ہمہ تن اسی میں لگارہتا ، اب بنارس جانے کا خیال بھی مدھم پڑگیا ، گھر بھی کم جاتا۔
بارگاہِ مصلح الامت میں :
غازی پور میں جب یکسوئی نصیب ہوئی ، تو طبیعت ان اعمال ووظائف کی طرف مائل ہوئی جن میں مَیں گھر پر رہ کر مشغول رہا کرتا تھا ، یعنی تلاوت، طول طویل نوافل ، اوراد و وظائف ، اور ان سب کے ساتھ شوق مطالعہ ، تہجد کی پابندی بحمد اﷲ ہر جگہ رہی ۔ میسور میں ، بنارس میں ، یہاں بھی وہ سلسلہ قائم رہا ۔ یہاں اوراد ووظائف میں اضافہ بھی ہوااور پابندی بھی بڑھی ۔ ایک روز مدرسہ کے کتب خانہ میں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ کی خانقاہ الہ آباد سے نکلنے والے رسالہ ’’ معرفت حق‘‘ کے چند شمارے ہاتھ آئے ، میں انھیں پڑھنے لگا ، ان کے پڑھنے سے دل پر عجیب وغریب اثر ہوا ، ایسا محسو س ہوا جیسے پیاسے کو آب زُلال مل گیا ہو ، دلچسپی بڑھی اور اتنی بڑھی کہ میں ان مضامین ومواعظ میں جذب ہوکر رہ گیا ، وہاں جتنے رسائل مل سکے ،میں سب اٹھالایا اور بار بار پڑھتا رہا ،اور جتنا پڑھتا دلچسپی بڑھتی رہی ، طبیعت دنیا سے پہلے ہی سرد ہوچکی تھی ، دل نے ’’ معرفت حق ‘‘ کے مضامین سے محبت ومعرفت کی گرمی پائی ، پھر آنکھوں نے آنسوؤں کی جھڑی لگادی ۔ میں شاہ صاحب کے نام سے واقف تھا ، ان کی تاثیر بھی قدرے جانتا تھا ، مگر ان کے مواعظ