پانچواں باب
عربی سوم (شوال ۱۳۸۵ھ تا شعبان ۱۳۸۶ھ)
پہلا سال پورا ہوتے ہوتے مدرسہ میں جی لگنے لگا، کچھ دوستیاں بھی ہوگئیں ۔ سالانہ تعطیل میں گھر پر رہا، گھر پر پڑھنے کی وہی دلچسپیاں برقرار رہیں ، اب کتابوں کی تلاش میں حکیم بشیر الدین صاحب مرحوم کے گھر پہونچا، ان کے یہاں کتابیں تو کم تھیں ، مگررسالہ دار العلوم دیوبند کے شمارے بہت تھے ، انھیں خوب پڑھا۔ انھیں میں مولانا مناظر احسن گیلانی علیہ الرحمہ کا سلسلۂ مضمون ’’ احاطہ ٔ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ‘‘ کی متعدد قسطیں پڑھیں ، ان کا مضمون مجھے بہت پسند آیا، اس کی جو قسطیں موجود تھیں ، میں نے بارہا پڑھیں ، بعد میں وہ ساری قسطیں جمع کرکے میں نے کتاب مرتب کردی۔
شوال آیا، تو شروع ہی میں ، میں مدرسہ چلا گیا ، اب ناظم کتب خانہ سے تعلق ہوگیا تھا، کتب خانہ سے استفادہ کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ کتابیں لے لے کر پڑھنے لگا، اور پڑھ کر واپس کردیتا، تعلیم شروع ہونے تک یہی کام رہا۔ ابھی عربی زبان میں دستگاہ نہیں ہوئی تھی، اس وقت مطالعہ زیادہ تر اُردو کی کتابوں کا ہوتاتھا، کبھی کبھی کوئی فارسی کتاب کتب خانے سے نکال لاتا، مگر اس کے مطالعے میں روانی باقی نہ رہتی۔
اس سال مجھے قدوری ، کافیہ ، القرأۃ الرشیدہ چہارم، نفحۃ الیمن، شرح تہذیب ، ترجمہ کلام ابتدائی پندرہ پارے اور شرح جامی بحث فعل پڑھنی تھی، اسباق کی تقسیم یوں تھی:
القرأۃ الرشیدہ
حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب رسول پوری
پہلا گھنٹہ
ترجمہ کلام
حضرت مولانا شمس الدین صاحب مبارکپوری
دوسرا گھنٹہ