کی نذر ہوا تھا ۔ دو طالب علم جو ذہین بھی تھے ، غیر درسی کتابوں سے شغف بھی رکھتے تھے ، ادبی ذوق کے بھی دلدادہ اور مالک تھے ، وہ دار العلوم کے طلبہ میں ایک انقلاب چاہتے تھے ، وہ انقلاب جو روس کے کمیونزم اور فرانس کے ہنگاموں کے نقش قدم پر ہو، اس کیلئے شاعری ، ادبی مضامین، افسانے اور ناول کو بطور اسلحہ اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔
میں عرض کررہا تھا کہ انقلاب کا یہ مفہوم بھی غلط ہے اور اس کا یہ طریقہ بھی غلط ہے ، اس انقلاب کی نہ منزل درست ہے اور نہ راستہ ! ہمیں یہ انقلاب درکار نہیں ہے ، اس علم وعمل اور فکر ونظر میں پختگی درکار ہے ، جو ہمارے اکابر واسلاف کا طرۂ امتیاز رہا ہے ، اور جو نبی اکرم اسے ہمیں بطور وراثت نسلاً بعد نسلٍ حاصل ہوا ہے ، اگر فکر وعمل کے جمود وتعطل میں اس طرح کا انقلاب چاہئے تو درست ہے ، اور اگر یہ نہیں ہے تو ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ، یہ انقلاب شاعری سے نہیں آئے گا ، قرآن وحدیث میں رسوخ سے آئے گا۔ یہ انقلاب ادبی مضامین اور افسانوی اسلوب وآہنگ سے نہیں ، روحانی تربیت وریاضت سے ہوگا ، اس موضوع پر دیر تک کشمکش رہی ، میں تو آج۴۰؍ سال کے بعد بھی اپنی اسی رائے پر قائم ہوں ، بلکہ تجربات نے اس میں مزید پختگی پیدا کردی ہے، لیکن بحث کرنے والوں میں سے ایک صاحب نے تو اپنے اس وقت کے خیالات سے برگشتہ ہوکروہی روپ دھارا ہے، جو میں نے اس وقت کہا تھا۔
کتب خانے سے استفادہ:
میں شوال ۱۳۸۸ھ میں دار العلوم دیوبند پہونچاتھا ، امتحان داخلہ اور داخلہ کے ابتدائی مرحلوں کی مشغولیات سے فراغت ہوئی ، تو مطالعہ کا شوق اور کتابوں کا ذوقِ تجسس مجھے دار العلوم کے وسیع وعریض کتب خانے میں لے گیا، یہ کتب خانہ کیا ہے؟ ہر علم وفن کی مختصر اور مفصل کتابوں کا عظیم الشان خزانہ اور علوم اسلامی کاایک نادر اور عدیم المثال گنجینہ ہے، علماء ربانی اور مشائخ حقانی کی ایک صدی کی کاوشوں اور جانکاہیوں سے جمع کیا ہوا کتابوں کا ایک سدابہارگلشن!