خلیفہ ایک ہندو بچہ کولائے ، اور عرض کیا کہ اس میں سعادت کے آثار ہیں ، اس کے لئے قبول حق کی دعا فرمادیں ، خواجہ صاحب آنکھوں میں آنسو بھرلائے ، فرمایا کہ اس قوم کا ہدایت پر آنا بسا مشکل ہے ، ہاں کسی بزرگ صاحب دل کی صحبت نصیب ہوتو توقع ہے ، ان جوان عالم نے اس گفتگو کی تحسین فرمائی ، اور میں وہاں سے بھی یہ احساس لے کر اٹھا کہ ہماری ناکارگی ، گنہگاری کے باوجود کچھ بزرگوں کی بارگاہ میں قبولیت سے سرفراز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
مدرسہ قرآنیہ میں تدریس
ان دنوں استاذ محترم مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ کو دھن تھی کہ مدرسہ قرآنیہ کو ترقی دی جائے ، طلبہ کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوگئی تھی ، اساتذہ بھی منتخب اکٹھے ہوگئے تھے ، مالی سرمایہ کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔ مولانا پڑھاتے بھی تھے اور جیسے موقع ملتا صبح و شام اور جمعرات وجمعہ کو چندہ کے لئے نکل جاتے ، اور اﷲ جانے کہاں کہاں جاکر مدرسہ کے لئے مالیات کا انتظام کرتے ، اسی دوران میں جب کبھی پہونچا اولاً انھوں نے دریافت کیا کہ کتنے وقت کے لئے آئے ہو ، میں بتاتا ، وہ اپنے اسباق میرے حوالے کرتے اور خود بیگ لے کر نکل جاتے ، میں جب تک رہتا ان کے اسباق پڑھاتا اور مولانا اطمینان سے چندہ کرتے ۔
مولانا کی یہ محبت اور ان کایہ اعتماد ، ان کی زندگی کے آخری لمحات تک اس غریب خاکسار کو حاصل رہا۔
کپڑے کی بنائی
میں نے ذکر کیاہے کہ ہمارے گھرمیں ہتھ کرگہہ تھے ایک کرگہہ رہائشی مکان میں تھی میں اب پڑھ کرفارغ ہوچکاتھا اب کسی نہ کسی معاش کے دھندے سے وابستہ ہونا ،عرف عام کے لحاظ سے ضروری تھا،ورنہ والدصاحب کی کمائی کب تک کھاتارہتا، گھرمیں کرگہہ تھی جس پر والد صاحب اورمجھ سے پہلے میری بڑی بہنیں کپڑابنتیں ، بہنوں کی شادی ہوگئی