تدریسی زندگی
پڑھنے کے ساتھ پڑھانے کا ذوق ، درس کے ساتھ تدریس کا شوق مجھے شروع ہی سے تھا ، مکتب میں جب پڑھتا تھا توخود رَو پودوں پر مشق تدریس کیا کرتاتھا ، عربی مدرسہ میں داخل ہوا تو جلد ہی اپنے سے چھوٹے طلبہ کو پڑھانا شروع کردیا تھا ، یہ سلسلہ طالب علمی کے آخر تک چلتا رہا ، فراغت کے بعد گاؤں میں حفاظ قرآن کو ترجمۂ قرآن پاک پڑھانے کی طرح ڈالی، چھٹی کے دنوں میں عربی کے طلبہ کو پڑھاتا رہا ، پھر میسور جانے سے پہلے امروہہ میں دوماہ تک عربی کی کتابیں زیر درس رہیں ، میسور میں عربی کے ایک پروفیسر صاحب کو پڑھانے کا مشغلہ رہا ، مگرتدریس کی مشغولیت اصطلاح کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ نہ تھی ، جیسا موقع ہوا پڑھانے کاکام ہوتارہا۔
میسور میں چند ماہ قیام کے بعد گھر واپس آیا،اور دوبارہ رخت سفر باندھنے والا تھا کہ تقدیر الٰہی بنارس میں نمودار ہوئی اور میسور کا ٹکٹ بن جانے کے بعد حافظ عبد الکبیر صاحب اورحاجی عبد القیوم صاحب علیہما الرحمہ ناظم وصدر جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کااصرار وحکم میسور جانے سے مانع بن گیا ، یہ شوال ۱۳۹۲ھ کی بات ہے ، عیسوی سن ۱۹۷۲ء غالباً رہا ہوگا۔
یہاں سے باضابطہ مدرسہ میں بطور ملازمت کار تدریس کاآغاز ہوا ۔ زمانہ کی ٹھوکروں اور مزاج وطبیعت کی افتاد نے نئی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے بہت کچھ غوروفکر کی دعوت دی ۔ میں سوچتا رہا کہ اب تک کی زندگی میں مَیں نے جو کچھ پایا ہے ، وہ مدرسوں میں رہ کر پایا ہے اور جو کچھ کھویا ہے وہ بھی مدرسوں میں ہی رہ کر کھویا ہے ، کیونکہ شعور کی زندگی کا آغاز مدرسہ میں ہی ہوا ،اور ایک مرحلہ میں آکر مدرسہ سے باہر کردیا گیا تھا ، مگر پھر وہی مدرسہ