ذرابھی لکنت نہ تھی مسلسل بولتے تھے، دل اورطبیعت کے بہت قوی تھے کوئی کیساہی سنگین معاملہ ہو گھبرانا اورڈرنا جانتے ہی نہ تھے، قرآن کریم بہت صاف اورتیز پڑھتے تھے یادداشت بہت اچھی تھی ،دیندار بہت تھے اوردینی احکام میں بہت پختگی رکھتے تھے اوراس باب میں بہت جری تھے، خوش مزاج بھی بہت تھے، ان کے یہاں مغرب کی نمازکے بعد مسجد کے نمازی لوگ جمع ہوتے،وہ حقہ پیتے تھے، اہل مجلس بھی حقہ کا شغل کرتے ، حقہ بھرنے کی خدمت میں نے بھی خوب انجام دی ہے، اس کا تذکرہ شاید پہلے کہیں آچکا ہے۔
میں نے جب حفظ کرنا شروع کیاتوحافظ صاحب کو سنانے لگا،اس وقت حافظ صاحب صاحب فراش تھے، کئی برس پہلے ان کے پاؤں میں ایک زبردست پھوڑا نکلاتھا، وہ پھوڑا بڑھ کر گھٹنے اورران تک پہونچ گیاتھا، اس نے انھیں معذورکردیا تھا مگر بہت صابر وشاکر بزرگ تھے ،برسوں یہ تکلیف جھیلی مگر شکایت کاکوئی کلمہ ان کی زبان سے نہیں سنا گیا، اس حال میں بھی مغرب بعد کی ان کی مجلس قائم رہی،عشاء تک لوگ بیٹھتے اورعشاء کی اذان پر یہ مجلس برخواست ہوتی، اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے۔
مدرسہ قرآنیہ جون پور میں حاضری
جن دنوں میں گھر پر قرآن کریم حفظ کررہاتھا ، اس وقت استاذ محترم مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ ایک مدرسہ میں نئی روح پھونک رہے تھے ۔ میں امروہہ میں زیر تعلیم تھا ، اس وقت جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں ایک انقلابی بھونچال آیا تھا ، اس بھونچال میں مدرسہ کے بعض بڑے ستون وہاں سے اکھڑ کر دوسری جگہ نصب ہوگئے تھے ۔ حضرت مولانا محمد عثمان صاحب ساحرؔ اور حضرت مولانامحمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ یہاں سے اٹھے، تو جونپور مدرسہ قرآنیہ بڑی مسجد میں جاپہونچے ، حضرت مولانا زین العابدین صاحب تبلیغی جماعت کے طویل مدتی دورے پر نکل گئے ، یہ تینوں اساتذہ مدرسہ کی روح تھے ، مدرسہ قرآنیہ ایک زوال پذیر پرانا مدرسہ تھا ، مولانا تشریف لائے تو اس میں نئی روح آگئی ، عربی کے پانچ