میرا زیادہ وقت مدرسہ میں گزرتا ،تعارف نہ تھا ، اس لئے ملاقاتوں کی کوئی زحمت نہ تھی ، فجر کی نماز سے قبل مدرسہ میں آجاتا ، اذان کہتا ، طلبہ کو جگاتا ، دوپہر کے وقفہ میں گھر جاتا جو مدرسہ سے تقریباً ایک کلومیٹر دور تھا ، ظہر میں واپس آتا ، پھر عشا کے بعد جاتا۔ یہ ایسا دور تھا کہ کسی معمول میں تخلف کم ہوتا ، مدرسہ میں سارا وقت یاتو درس وتدریس اور طلبہ کے لئے ہوتا یا عبادت کے لئے !
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ایک وقت مشہور عالم وخطیب حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب جلال پوری علیہ الرحمہ ایک ہفتہ تک مدرسہ دینیہ میں تشریف فرما رہے ، غازی پور کے مختلف حلقوں اور گاؤں میں ان کے پروگرام چل رہے تھے ، وہ رات میں یا صبح کو مدرسہ میں تشریف لاتے اور شام تک قیام فرماتے ، پھر پروگرام میں جاتے ، میں اس وقت ان سے قریب ہوا ، انھوں نے بھی محبت کا برتاؤ کیا ، بہت دنوں کے بعد ان کے مدرسہ کے ایک مدرس مولانا محمد صاحب ، جن کا نام پیرمحمد تھا ، مگر ہم لوگ صرف محمد کہتے تھے ، دیوبند میں بندہ ان کے قریب تھا ، یہ فارغ ہوکر حضرت مولانا وحید الزماں صاحب علیہ الرحمہ کے قائم کردہ درجہ صف نہائی میں زیر تعلیم تھے اور میں صف ثانوی میں تھا اور جلالین شریف پڑھ رہاتھا ۔ انھوں نے سنایا کہ مولانا جب غازی پور سے لوٹے تو فرمارہے تھے میں مدرسہ دینیہ میں ایک جن سے مل کر آرہاہوں ، وہ ابتداء سے عربی پنجم تک کی بارہ چودہ کتابیں پڑھاتا ہے ، رات میں زیادہ تر عبادت کرتا ہے ، دن بھر پڑھاتا ہے ، اﷲ جانے کب مطالعہ کرتا ہے ،اور طلبہ نہ صرف اس سے مطمئن ہیں بلکہ اس پر فدا ہیں ، اس کی محبت کا دم بھرتے ہیں ۔
مولانا محمد صاحب کہہ رہے تھے مولانا کے اس ارشاد سے مجھے خوشی ہوئی، میں تو آپ کو جانتا ہوں ، ساتھ ہی رشک بھی آیا۔
مدرسوں میں طلبہ کے بگاڑ کے اسباب:(۱)
عربی پنجم کے طلبہ کو اگلے سال چونکہ دیوبند جانا تھا ، اس لئے میں ان کے ساتھ
------------------------------
(۱) یہ عنوان حضرت مولانا کے قلم سے نکلی ہوئی بالکل آخری تحریر ہے، انتقال کے دن صبح میں نے اس کوتصحیح کیلئے دیا اور کہا کہ یہاں عنوان کی علامت بنی ہوئی ہے اور عنوان ہے نہیں ،تو یہ لکھ کر دیا۔(ضیاء الحق)