’’یہیں شعورکی آنکھ کھلی ،یہیں اس میں پختگی آئی، اوریہاں جومزاج بن گیا اس کی چھاپ اب بھی باقی ہے، مدرسے کا جب تصورآتاہے تو لوح ذہن پر پہلے یہی مدرسہ ابھرتا ہے،ابھی کچھ عرصہ پہلے تک میں خواب میں جب بھی اپنے کو پڑھاتے یاپڑھتے دیکھتاتواسی مدرسے میں دیکھتا، اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کو اس کے اساتذہ وطلبہ اوراہل انتظام کو اپنی رحمتوں ، مہربانیوں سے نوازیں ۔آمین‘‘(حکایت ہستی:۱۲۹)
دار العلوم دیوبندمیں :
اس کے بعد شوال ۱۳۸۸ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔امتحان داخلہ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی نے لیا، اور نمایاں نمبرات آپ کامیاب ہوئے ، جدید طالب علم ہونے کے باوجود آپ کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے مولانا نے عربی تکلم وانشاء کے درجہ ’’ صف ثانوی‘‘ میں آپ کو داخل کیا ۔ مولانا لکھتے ہیں :
عربی تکلم وانشاء کے استاذ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی علیہ الرحمہ تھے، ان سے دورِ احیاء العلوم ہی سے بہت عقیدت تھی ، میں ان کے درس میں خصوصیت سے شرکت کرنا چاہتا تھا۔مولانا نے عربی تکلم وانشاء کے لئے تین درجے قائم کررکھے تھے ، پہلے درجے کو ’’صف اول‘‘ دوسرے کو ’’ صف ثانوی ‘‘ اور تیسرے کو ’’ صف نہائی ‘‘ کے نام سے موسوم کررکھاتھا، جدید طلبہ کا داخلہ ’’ صف اول ‘‘ میں ہوتا تھا۔ یہ جماعت دو حصوں میں منقسم تھی ، اور دونوں کو صف نہائی کے ممتاز طلبہ جن کو مولانا متعین فرماتے تھے ، انھیں پڑھایا کرتے تھے ، اور مولاناخود صف ثانوی اور صف نہائی کو پڑھاتے تھے ، ان تینوں جماعتوں میں شامل ہونے کے لئے تعلیمات میں درخواست دینی ہوتی تھی ، میں نے صف ثانوی میں شامل ہونے کی درخواست دی ، دفتر تعلیمات سے مجھے ہدایت ملی کہ آپ جدید طالب ہیں مولانا وحید الزماں صاحب کی منظوری کے بعد آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا ، میں مولانا کی خدمت میں گیا ، مولانا سے گزارش کی ،مولانا نے مجھے پہچان لیا ، اور فرمایا اچھی بات ہے ، آپ سبق میں آیا کیجئے ، میں کہہ دوں گا ۔ میں صف ثانوی کے سبق میں حاضری دینے لگا، مگر